• قرآن و اهل البیت علیهم السلام || چینل کارگل لداخ •

؀ قرآن و اهل البیت علیهم السلام چینل کارگل لداخ ایک علمی، مذهبی، اجتماعی و فرهنگی فعالیت انجام دینے اور لوگوں کو قرآن و اھل البیت علیہم السلام کے دکھائے ھوئے راستے کی طرف حد امکان آشنا کرانے کا ذریعہ ہے

چوتهے دن کے دعا کی مختصر توضیح

 

💠 ماہ مبارک رمضان کے چوتھے دن کی دعا اور مختصر توضیح:

🔹 اللَّهُمَّ قَوِّنِی فِیهِ عَلَی إِقَامَهِ أَمْرِک وَ أَذِقْنِی فِیهِ حَلاَوَهَ ذِکرِک وَ أَوْزِعْنِی فِیهِ لِأَدَاءِ شُکرِک بِکرَمِک وَ احْفَظْنِی فِیهِ بِحِفْظِک وَ سِتْرِک یا أَبْصَرَ النَّاظِرِین
🔸خدایا! مجھے طاقت دے تاکہ اس دن تیرے حکم کی بہترین پیروی کروں، اس دن اپنی یاد کی میٹھاس سے سرشار رکھ اور اس دن (اور ماہ) اپنے کرم سے شکرگزاری کی توفیق دے خدایا میری حفاظت فرما اور میرے عیوب کو چھپا لے تو بصیر اور دانا تر ہے۔

🔰 پیغام دعا:
1️⃣ عبادت کی انجام دہی کے لیے قوت و طاقت کی درخواست
2️⃣ ذکرِ خدا کی مٹھاس کا تقاضہ
3️⃣ شکرِ الٰہی ادا کرنے کی درخواست
4️⃣ گناہوں کو پردہ میں رکھنے کی درخواست

🔰 منتخب پیغام:
1️⃣ عبادت کے لیے قوت کی طلب
عبادت کے لیے قوت صرف جسمانی طاقت سے نہیں بلکہ روحانی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کی روح کو مضبوط کرتی ہے اور اسے عبادت کے ہر لمحے میں حضور کا احساس دلاتی ہے۔لہذا رمضان کے مہینے میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں عبادت کی طاقت دے تاکہ ہم اس مہینے کی ہر رات و دن میں اس کی رضا کے لیے اپنی عبادات کو خلوص دل سے ادا کر سکیں جیساکہ دعائے کمیل میں بھی ہم اللہ سے یہی مانگتے ہیں کہ: «قوّ علی خدمَتِکَ جوارحی» یعنی ہمارے اعضاء کو اپنی خدمت کے لیے طاقتور بنا دے تاکہ ہم اپنے کردار کو بہتر کر سکیں
 امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: "خدایا تیری سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو نے ہمارے زبانوں پر اپنا ذکر جاری کیا اور ہمیں راز و نیاز و عبادت میں مشغول ہونے کی توفیق دی۔"

2️⃣: ذکرِ خدا کی حلاوت
ہم ذکرِ خدا کی شیرینی کا ذائقہ کیوں نہیں چکھتے؟
 خداوند نے فرمایا: جب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرے بندے کا زیادہ تر وقت میری یاد اور فکر میں گزرتا ہے، یعنی وہ یہ سوچتا ہے کہ کیا واجب ہے کہ وہ کرے یا کس چیز سے بچنا ہے تو میں اس کی خواہشات کو اپنی مناجات کی طرف مائل کر دیتا ہوں۔اگر کوئی شخص دنیاوی لذتیں جیسے کہ کھانے پینے، سیر و تفریح، لباس وغیرہ میں غرق ہو تو خدا اسے اپنی مناجات کی توفیق نہیں دیتا۔

3️⃣: شکرِ الٰہی کی ادائیگی
شکر کا مفہوم قدردانی،قدر شناسی اور حق شناسی ہے اگر بندہ شکر گزار بننا چاہے تو اسے خدا کی نعمتوں کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے یعنی ہر نعمت کو جاننا چاہیے کہ وہ کس مقصد کے لیے دی گئی ہے اور اسے اسی مقصد کے تحت استعمال کرنا چاہیے شکر کی توفیق بھی خدا سے مانگنی چاہیے کیونکہ ہر چیز اسی کی طرف سے ہے اور «توفیق» بھی «من اللہ» ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خدا سے درخواست کی: "رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیَّ" یعنی: "اے خدا! مجھے تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔"
 حضرت موسیٰ کا واقعہ:
روایت ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل کی کہ: "اے موسیٰ، میرا حقِ شکر ادا کرو۔" حضرت موسیٰ نے عرض کیا: "اے میرے پروردگار! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں جب کہ حقِ شکر تو تیرا ہی ہے؟جب کہ کوئی شکر ایسا نہیں جس سے میں تیرا شکر ادا کروں سوائے اس کے کہ وہی شکر بھی ایک نعمت ہے جو تو نے مجھے عطا کی ہے۔" خداوند نے فرمایا: اے موسیٰ، اب تم نے میرا حقِ شکر ادا کر دیا ہے کہ تم نے جان لیا کہ وہ بھی میری طرف سے ہے۔

4️⃣ ستاریت خداوند اور گناہوں کی پردہ پوشی
وہ خدا جو بصیر ہےستار العیوب بھی ہے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "اگر تم لوگ ایک دوسرے کے گناہوں سے واقف ہو جاتے تو کوئی کسی کے جنازے کو دفن نہ کرتا! خداوند متعال اپنی پردہ پوشی سے ہمارے گناہوں کو چھپاتا ہے، لیکن ہمیں حیا کرنی چاہیے اور خدا کے بصیر ہونے کے باوجود اپنے نفس کو قابو میں رکھنا چاہیے اور گناہ سے بچنا چاہیے۔

 تحسین رضا

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

ماہ رمضان نیکیوں کے حصول کا ذریعہ

ماہ مبارک رمضان نیکیوں کے حصول کا ذریعہ

قال الامام المجتبیٰ علیه السلام:

إنَّ اللّه َجَعَلَ شَهرَ رَمضانَ مِضمارا لِخَلقِهِ فَیستَبِقونَ فیهِ بِطاعَتِهِ إلى مَرضاتِهِ

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا:

خداوند متعال نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی مخلوق کے لئے (نیکیوں کے حصول کے سلسلہ میں) مقابلہ کا میدان قرار دیا ہے تاکہ اپنے پروردگار کی خوشنودی کی خاطر اس کی اطاعت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔

📚تحف العقول، ص 236

     

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

انس با تلاوت قرآن

 

 

 

🌺🌺🌺
حضرت امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں:

*مَنْ آنَسَ بِتَلاوَةِ الْقُرآنِ، لَمْ تُوحِشْهُ مُفارَقَةُ الاِخْوانِ*

جو شخص تلاوت قرآن سے مانوس ہو گیا تو، اسے دوستوں کی جدائی سے وحشت نہیں ہو گی۔

`غرر الحکم، ح 8790`

*بھترین انداز میں تلاوت کلام اللہ المجید پیش کرتے ہوئے ایرانی بچہ کہ جسکو سنکر بد حجاب عورت بھی اپنی حجاب صحیح کرنے لگی* 👇🏻👇🏻
https://youtu.be/CB_SVWpaZpc?si=Rcp_iSkqH6z2Bmzl

❇️join us 
__________________& 
🌹🌺🌺🌺
`CHANNEL join`
https://whatsapp.com/channel/0029VaMYsUnBPzjO1WllmQ3V

*Blog.ir address*
https://quranandahlulbaitchannelkargil.blog.ir/

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

اختلاف نظرات کے متعلق امام علی علیہ السلام کا نسخہ؟


امام علی (عَلَیْهِ‌السَّلام)

إضرِبُوا بَعضَ الرَّأیِ ببَعضٍ یَتَولَّدُ مِنهُ الصَّوابُ, وامخَضُوا الرَّأیَ مَخْضَ السِّقاءِ یُنتِج سَدیدَ الآراءِ.

*ترجمہ:-  مختلف آراء کو ایک دوسرے کے سامنے رکھیں، تاکہ جو صحیح ہے حاصل ہو جائے، اور مکھن حاصل کرنے کے لیے مشک کی آمیزش کی طرح خیالات کو ملایا جائے، تاکہ صحیح اور مستحکم رائے حاصل ہو۔*

غرر الحکم کی تفصیل، جلد 2، صفحہ 266

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

جشن مولود کعبہ اور ھماری زمہ داریاں

جشن مولود کعبہ اور ھماری زمہ داریاں 

 

عنقریب ہم سب امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت منانے کے لئیے آمادہ ہیں ،۱۳ رجب کی تاریخ ایک بڑی تاریخ ہے اس دن تاریخ کے اس عظیم المرتبت انسان کی ولادت ہوئی ہے جس کی تعلیمات سے آج بھی بنی نوع بشر بہرہ مند ہو رہی ہے وہ انسان جسکا دل صرف اپنوں ہی کے لئیے نہیں ہر ایک انسان کے لئیے تڑپتا تھا ۔ کیا ایسے انسان کی ولادت کا جشن ہمارے ملک میں اس انداز میں نہیں ہونا چاہیے کہ دیگر قومیں متوجہ اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ ہم تاریخ کی کسی عظیم ہستی کی ولادت منا رہے ہیں اورجسکی ولادت منا رہے ہیں اس نے انسانیت کو کیا دیا ہے ؟ جب ہم امام علی علیہ السلام کی ولادت کا جشن منائیں تو کیا بہتر ہو کہ یہ جشن کچھ اس انداز سے منایا جائے کہ لوگوں کو آپ کے تعلیمات کا پتہ چل سکے اور خود ہم اس ۱۳ رجب کو عہد کریں کہ ہماری زندگی راہ علی پر گزرے گی اس لئیے کہ علی کی زندگی سیرت پیغبر ص کی آئینہ دار وہ زندگی ہے جسکا ایک ایک پل ویسا گزرا جیسا خدا کو مطلوب تھا ۔

اہلسنت عالم دین سید ابوالحسن ندوی امام علی علیہ السلام کے پیغمبر سے مانوس ہونے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی اورنسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روز مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نبوی کی خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی، جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا، وہ آپ کے میلان طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے، جن کا آپ کے رجحان پر اثر پڑتا ہے، یہی نہیں بلکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے بیان کرنے اور ایک ایک گوشہ کواجاگر کرکے بتانے میں مہارت تھی، آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و رجحان اور طریق تامّل کو بہت ہی بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔،، اسکا مطلب یہ ہے کہ چاہے ہم ہوں جو علی علیہ السلام کو اپنا پہلا امام مانتے ہیں چاہے ہمارے اہلسنت برادران ہوں اگر انہیں صحیح انداز میں آگے بڑھنا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز سے سربلند گزرنا ہے تو ضروری ہے کہ وہ علی ؑ کی زندگی کے رہنما اصولوں کو اختیار کریں تاکہ دین و دنیا میں سرخ رو ہو سکیں ۔یقینا ایسی شخصیت کی عملی زندگی سے آشنا ہونا ہم سب کے لئے ضروری ہے جسے اپنوں تو کیا غیروں نے زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

آئیں دیکھیں غیر مسلم دانشورں نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہا ہے اور ان کی گفتگو کے بعد ہماری ذمہ داری ایک پیرو علی ع ہونے کی حیثیت سے کیا ہے:

سلیمان کتانی کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ ایک جملہ کتنا سچا اور پیاراہے کہ: تمام فضائل و خصائل علی علیہ السلام میں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کی عظمت بلند ہوئی اور یہ علی علیہ السلام ہی کی مرہون منت ہے-”-

ایک اور مقام پر کہتے ہیں : ‌جس وقت علی علیہ السلام کو خلافت ظاہری حاصل ہوئی، توانہوں نے اپنا وظیفہ اور فرض سمجھا کہ دو محاذوں پر مقابلہ کیا جائے- پہلا محاذ لوگوں کو انسانی بلندی و عظمت سے آگاہ کرنا تھا اور دوسرا فتوحات جنگی کو اسلامی اصولوں کے تحت استوار کرنا تھا- یہی نکات تھے جو سرداران عرب کو ناپسند تھے اور انہوں نے بغاوت کے علم اٹھالئے-”-

عیسائی مصنف (Poul Salama) امام علی ؑ کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں :

جی ہاں میں ایک عیسائی ہوں، لیکن وسعت نظر کا حامل ہوں ، تنگ نظر نہیں ، گرچہ میں عیسائی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، ایسی شخصیت جس کا عیسائی احترام کرتے ہیں اور اپنے اجتماعات میں ان کی ذات کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو کچلنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔یتیموں اور فقراء کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر آپ کی حالت ہی غیر ہوجاتی تھی اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی شک نہیں کہ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراتے ہو ہر درد و الم کو قبول کرتا ہے،،۔

کیا قابل غور نہیں کہ ایک عیسائی اس والہانہ انداز میں گفتگو کر رہا ہے اوروہ بھی امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے اگر ایک عیسائی دانشور علی ؑ کی شخصیت میں دوسروں کا درد دیکھ رہا ہے اگر فقراکو دیکھ کر علی ؑ کا مچلنا دیکھ رہا ہے تو ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے ایک علی ؑ کے چاہنے والے کی حیثیت سے ؟کیا علی ؑ کی زندگی ہم سے مطالبہ نہیں کرتی کہ ہم اپنے سماج اور معاشرہ میں غریب و نادار طبقے کا ہاتھ پکڑیں ؟ کیا علی ؑ کی زندگی ہم سے مطالبہ نہیں کرتی کہ دوسروں کا غم بانٹے انہیں ہلکا کریں اگر علی ؑ کی شخصیت درد و غم و اندوز سے نکھرتی ہے تو ہمیں بھی مصائب و آلام اور پریشانیوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے جادہ عشق پر سر بلند و سرفراز ہو کر چلنا ہوگا ۔

ایک اوور مقام پر ایک اور مستشرق برطانوی مصنف جرنل سرپرسی سایکس(Journal Sir Percy Sykes)امام علی علیہ السلام کے بارے میں یوں کہتے نظر آتے ہیں ''حضرت علیؑ دیگر خلفاء کے درمیان شرافت نفس، بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔ بڑے لوگوں کی سفارشات اور خطوط آپ کی کارکردگی پر اثرانداز نہیں ہوتےتھے اور نہ ہی ان کے تحفے تحائف پر آپ ترتیب اثر دیتے تھے،، ۔ امانتوں کے معاملے میں حضرت علیؑ کی دقت نظر اور ایمانداری کے باعث لالچی عرب آپ سے نالاں تھے،،۔ اس عیسائی مصنف کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہم سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ آج سیرت علی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنی زندگی میں انہیں چیزوں کا اپلائی کرنا ہوگا جو امام علی علیہ السلام کی حیات میں نظر آتی ہیں ؟ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد ایک عیسائی مصنف اگر علی علیہ السلام کو اس لئیے یاد رکھے ہوئے ہے کہ علی ؑ اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے تو ہم کہاں پر ہیں ؟ اپنے ما تحتوں کے ساتھ ہمارا طرز عمل کیا ہے ؟ علی ؑ اگر امانت کے سلسلہ سے بہت زیادہ حساس تھے تو ہم کتنے حساس ہیں ؟

ایک اور برطانوی مصنف اور ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) یوں کہتے نظر آتے ہیں :

''علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھےعرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں،آپٖ ایسے غنی تھے مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا ،، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری زندگی ایسی ہے کہ ہمارے ارد گرد مسا کین و فقراء کا حلقہ رہے ؟ یا ہم اس حلقہ کو ڈھونڈتے ہیں جہاں اغنیاءو ثروت مند افراد نظر آتےہیں ؟

فرانس کے میڈم ڈیالفو Madame Dyalfv کہتے ہیں : آپ اسلام کی سربلندی کے لیے مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے،حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جنہوں نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جنہیں عرب یکتا خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا

یہ صرف فرانس کے دانشور ہی نہیں بلکہ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن(1737-1794) بھی امام علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے نظر آتے ہیں :''حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔ “

۔ اب یہاں پر بھی ہمیں خود سے سوال کرنا ہے کیا ہمارا ہم و غم وہی ہے جو علی کا تھا کیا ہماری زندگی میں وہ توحید پائی جاتی ہے جس کے لئیے علیؑ نے جنگیں لڑیں کیا ہمارا مزاج مسلمانوں کے ساتھ ویسے ہی منصفانہ ہے جیسا علی ؑ کا تھا ؟ ان مصنفین کے جملوں کو دیکھیں اور خود کو ان جملوں کے میزان پر تولیں کیا ہم ایسے ہی ہیں ؟ کیا ہم اپنے بھائیوں اور برادران دینی کے ساتھ منصفانہ مزاج رکھتے ہیں ؟ کیا ہمارا کام ہمارا عمل حتی ہمارا نظریہ منصفانہ معیاروں پر استوار ہے ؟ کیا جہاں ہم ہوں وہاں انصاف و عدل کی خوشبو آتی ہے یا جہاں پہنچ جائیں وہاں ظلم کا سیاہ دھواں اٹھتا نظر آتا ہے ، کیا ہم اپنے دوستوں کے ساتھ شفقت کا برتاو کرتے ہیں کیا کیا اپنے دشمنوں کے ساتھ ہمارا عداوت و دشمنی کا کوئی معیار ہے ، یا جو فراخ دلی امام علی علیہ السلام کی دشمنوں کے ساتھ تھی وہ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ بھی نہیں دکھا پاتے ؟

معروف تاریخ پروفیسرفلپ کے حتی1886-1978) کہتے ہیں ”سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کردیا تھا۔

کیا ہم اپنے طرز زندگی میں سادہ ہیں یا دنیا کی زرق و برق میں پوری طرح یوں غرق ہیں کہ سادگی محض ایک حرف بن کر رہ گئی ہے ہماری زندگی میں سب کچھ ہے سوائے سادگی کے ،ہم فیشن اور زمانے کی ضرورت کی آڑ میں وہ سب کچھ کرتے ہیں جسکی علی ع کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں تھی بلکہ علی ع کی جنگ ہی انہی لوگوں سے تھی جو دنیا میں اس طرح رنگ گئے تھے کہ سادہ زیستی انکے لئے آبرو کا مسئلہ بن گئی تھی وہ ایک عام آدمی کی طرح سادہ نہیں جی سکتے تھے انہیں تام جھام کی ضرورت تھی ، انہیں اپنے انسان ہونے پر فخر نہ تھا بلکہ وہ اپنے مادی وسائل و ذرائع پر فخر کرتے تھے

سرویلیم مور (1905-1918)'' ایک الگ زاویہ کے تحت امام علیہ السلام کی زندگی میں پائی جانے والی دانشمندی و شرافت کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں :حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے”۔

اب ہم سوچیں کیا ہمارے زندگی کے فیصلہ ہماری دانشمندی کی علامت ہیں کیا ہم ایسے مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر ہمارے غیر مسلم بھائی کہہ سکیں کہ یہ ایسا علی علیہ السلام کا ماننے والا ہے جو دانشمندی و شرافت مندانہ زندگی میں علی علیہ السلام کی طرح بے مثال ہے

برطانوی ماہر جنگ جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984):ایک مقام پر کہتے ہیں حضرت علیؑ کے اسلام سے خالصانہ تعلق خاطر اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی”۔ اب ہم سوچیں کہ ہمارا اسلام سے تعلق کس قدر خالص ہے اور کیا ہم کسی خطا کا شکار ہونے والے اپنے ہی دوست کو معاف کرنے پر تیار ہیں ؟ یا ہر وقت بدلہ لینے کی فکر ہمیں ستائے رہتی ہے اور جب تک ہم بدلہ نہ لے لیں آتش انتقام فروکش نہیں ہوتی؟

امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے مختلف مکاتب فکر سے متعلق دانشوروں کے اظہار خیال کے یہ چند نمونے تھے جنہیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا ،اس طرح اور اس سے بھی بہتر ایسے مسحور کن جملے آپکو امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے بہت ملیں گے جن کو پڑھ کر یا سن کر آپ وجد میں آ جائیں لیکن اس منزل پرآگے بڑھ کر ہمارا سوال خود سے ہے کہ چاہے وہ دوستوں سے شفقت ہو یا سادگی و شرافت یا پھر دوسروں کو معاف کر دینے کا جذبہ ہمیں یہ خود سے پوچھنا ہوگا کہ یہ غیر مسلم دانشور امام علی ؑ کے جن صفات کی دہی کرتے ہوے انہیں سراہ رہے ہیں ہم بھی انہیں سراہیں تو ہم میں اور ان میں فرق کیا ہوگا ؟ کیا فرق صرف مانننے اور تسلیم کرنے میں ہے یا فرق عمل میں ہونا چاہیے ؟ اگر فرق عمل میں ہے تو ہمارا عمل کہاں ہے اور علی ؑ کی زندگی کہاں ہے ؟ علی کی کتاب نہج البلاغہ آج ہمارے یہاں کیوں مظلوم ہے وہ کتاب جس کے بارے میں یہی سلیمان کتانی لبنانی مفکر کہتے نظر آتے ہیں ”‌کونسی ایسی چیز ہے جو نہج البلاغہ میں بیان کی گئی ہے اور وہ ایک حقیقت کی عکاس نہ ہو؟ ایسا لگتا ہے جیسے آفتاب کا تمام نور سمٹ کر پیکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں سماگیا ہوکونسا ایسا کام ہے جو علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں انجام دیا ہو اور اس کا انجام انتہائی اعلی نہ ہو  

ہمارا یہ خود سے سوال ہونا چاہیے کہ جب غیر اسلامی دانشور و اسکالرز امام علی علیہ السلام کے بارے میں اتنے خوبصورت انداز میں اظہار خیال کر رہے ہیں تو ہمیں پھر کیسا ہونا چاہیے ہمارا عمل کیسا ہونا چاہیے ؟

کیا آج کی اس دنیا میں ہمارے لئیے ضروری نہیں کہ انسانیت کی قدروں کو اجاگر کرنے کے لئیے خود بھی علی ؑ کے اصولوں پر چلیں اور دنیا کے سامنے ان کی کتاب کے تعلیمات کو بھی عام کریں۔

  آج دنیا میں یہ نعرہ تو بہت دیا جاتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور حقوق بشر کی عالمی قرارداد میں بھی یہ بات موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عالمی حقوق بشر کے حوالہ سے پوری دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، تو پھر یہ جنگ و جنایت کیسی ؟ کیوں دنیا میں چین و سکون کیوں نہیں ؟ کیا اس کی بنیاد یہ نہیں کہ انسانی حقوق کے دعویدار خود دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں جو حقوق بشر کا نعرہ دے رہے ہیں وہی اپنے مفادات کے لئیے دوسروں کے حقوق کو چھین رہے ہیں ۔  

ایسے میں کیا ضرورت نہیں ایک ایسے انسان کا دامن تھاما جائے جو صرف حقوق بشر کا نعرہ لگانے والا نہ ہوکر حقیقی معنی میں حقوق بشر کا محافظ ہو اور ایسا انسان علی ؑ کے علاوہ کہیں مل جائے تو دنیا بتائے؟ سبکو اسی کی پناہ میں جانا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسی شخصیت علی کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتی ، حقوق بشر کا منشور لکھنے والے تو بہت ہیں لیکن حقیقی معنی میں انسان کے ہمہ جہت حقوق کی رعایت کرنے والی ذات بس علی ع کی ہے علی ؑ ان لوگوں کی طرح نہیں جو ایک منشور لکھتے ہیں اور جب وہ منشور اپنے مفادات سے ٹکڑاتا ہے تو اسے ہی کنارے ڈال دیتے ہیں بلکہ علی ؑ اس شخصیت کا نام ہے جو پہلے عمل کرتا ہے پھر دوسروں کو بتاتا ہے حضرت علی(ع) نے اس حقوق بشر کے منشور کو اگر مالک اشتر کےمکتوب میں درج فرمایا تو اس پر عمل بھی کیا جبکہ علی ؑکے علاوہ لوگوں نے انسانی حقوق کا قانون تو لکھا لیکن ھرگز خود اس پر عمل نہیں کیا ۔آج آپ عالمی منظر نامہ پر نظر ڈالیں اور انسانی حقوق کے منشور کو دیکھیں تو آپکو نظر آئے گا کہ حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے عالمی سامراجیت کے شانہ بشانہ جیسے کل اپنے مفادات کی جنگ میں مشغول تھے آج بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی بازیابی کی آڑ میں انسانی اقدار و حقوق انسانی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کبھی شام پر حملہ ہوتا ہے کبھی یمن پر کبھی افغانستان و عراق پر ۔

 وہ مظلوموں کے خون سے رنگیں سرزمین یمن ہو ، دہشت گردوں کی وحشیانہ کاروائیوں سے کھنڈرات میں تبدیل سرزمین شام ، یا پھر بے گناہوں کے لہو سے رنگین عراق و افغانستان ،یہ بے گناہوں کا خون ارزاں رہے گا تب تک جب تک کہ ہم دنیا کے اندر انصاف کا مزاج نہ پیدا کر دیں اور لوگوں کے دلوں میں وہ درد نہ منتقل کر دیں جسے درد علی ؑ کہا جاتا ہے ۔ وہ انصاف کی خو ہو یا علی ؑکا درد دنوں ہی چیزوں کو علی ؑ کی کتاب نھج البلاغہ بیان کر رہی ہے ۔ ورنہ دنیا میں انسان بھیڑیا بن کے اپنے ہی ہم نوعوں کو چیرتا پھاڑتا رہے گا جیسا کہ توماس ھابس کے مشہور نعرہ میں آیا:''انسان ہی ،انسان کے لئے بھیڑیا ہے'' یہی نعرہ عملی ہوتا رہے

بالکل واضح ہے کہ ''انسانوں کے درمیان مساوات ''مقررہ حقوق اور تکلیف کے مقابلے میں، پاک اور متمدن انسانوں کی دلی خواہش رہی ہے،لیکن افسوس کی بات ہے جیسا کہ قدیم اور جدید زمانے سے انسانوں کی تاریخ شاہد ہے،کہ یہ مفہوم بھی''انسانی حقوق'' کے نعرہ کی طرح یا تو تحریرو تقریرو اور اشتہارات کا وسیلہ بن کر رہ گیا ہےجسے دوسروں کے لئے بیان کیا جاتا ہے اور بس ،یا ناتواں اور سادہ لوح افراد کوفریب دینے کا وسیلہ ہے جو کہ اس نعرہ کی ظاہری خوبصورتی کو دیکھ ساتھ آ جائیں ۔ جبکہ اگر حقوق بشر کی تمام شقوں کو معاشرہ میں لانا ہو اور محض ایک نعرہ سے نکال کر اسے زندگی کے ہر شعبہ میں جاری و ساری کرنا ہو تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ ایک ایسے انسان کے پاس جائیں جو صرف حاکم نہیں ہے بلکہ حکومت تک پہنچنے سے پہلے وہ مزدوررہا ہے ، اس نے نہروں اور چشموں کو جاری کرنے میں انسانی مزدوروں کو بعد میں لگایا ہے سب سے پہلا پھاوڑا خود چلایا ہے سب سے پہلا بیلچہ خود چلایا ہے ، پہلا کدال خود چلایا ہے ، دنیا ایسا انسان کہاں سے لائے گی جس نے پیاسوں کے لئیے چشمے خود جاری کیئے ہوں ، نہ کہیں سے بل پاس ہو جانے کا انتظار کیا نہ کہیں سے بجٹ کے آ جانے کا انتظار کیا ، نہ ہی عوامی اعتراض کا سامنا کرنے پر اسے کسی کے سامنے مجبور ہونا پڑا بلکہ اس نے دیکھا کہ انسانیت کو پانی کی ضرورت ہے تو نکل پڑا کہیں قناتیں بنائیں کہیں چشموں کو پھوڑا کہیں نہروںاور ندیوں کے رخ کو کھیت کھلیان کی طرف موڑا ا ایسا انسان جس نے ضرورت مندوں کے لئیے حمالوں کو نہیں ڈھونڈا کہ کوئی مل جائے تو دو پیسے دیکر اس پر بوجھ لاد دیا جائَے بلکہ جب دیکھا کہ کسی کو ضرورت ہے اور اس سے اپنا بوجھ نہیں اٹھ رہا تو آستینوں کو چڑھا کر آگے آ گیا کہ میں ہوں ، ایسا انسان جس نے لوگوں کی خاطر حمالی کی ایسا انسان جس نے بیواوں اور یتیموں کے لئیے خود کھانا بنایا ایسا انسان جس نے اپنی جوتیاں خود سیں ایسا انسان جو کبھی کھیت میں کام کرتا نظر آیا کبھی یہودی کے باغ میں آبیاری کرتا نظر آیا کبھی جنگوں میں تلوار چلاتا نظر آیا یقینا اتنا حق ہم سب پر رکھتا ہے کہ اس نے جب قلم اٹھا کر کچھ لکھا ہے تو ہم سب دیکھیں کہ اس نے انسانیت کو اپنی تحریر میں کیا دیا ہے لیکن یہ سب تب ہوگا جب ہم اس کی کتاب کو پڑھیں گے اور دیکھیں گے ہم سے مخاطب ہو کر اس نے کیا کہا ہے

آج جب ہم تیرہ رجب کی خوشیاں منانے میں مصروف ہیں ، جب ہر طرف چراغانی ہے ، جب ہر طرف مبارکبادی کے سلسلے ہیں پھول ہیں ، گلدستے ہیں ، عطر آگیں ماحول ہے ، ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ہم اپنی فریاد کرتی چیختی چلاتی روح کی طرف ایک نیم نگاہ کریں اور دیکھیں کہ وہ کیوں فریادی ہے ، کیا بہترین ردیف و بہترین قافیوں کی بندش میں امام علی علیہ السلام کی شان میں قصائد سپرد قرطاس کرنے والوں پر لازم نہیں کہ دیکھیں امام علی علیہ السلام ان سے کیا کہہ رہے ہیں ، نھج البلاغہ ان سے کیا کہہ رہی ہے ؟

کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حال بقول رہبر انقلاب اسلامی ایک ایسے بیمار کا ہو جس کی جیب میں یا الماری میں ایک ماہر طبیب کا نسخہ پڑا ہوا ہے لیکن وہ اس نسخے کو کھول کر نہیں دیکھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا جبکہ اپنے مرض کی تکلیف سے تڑپتا بھی ہے ۔

تیرہ رجب میں جتنی خوشیاں منائی جائیں کم ہیں ، جتنی چراغانی ہو ، جتنی محافل سجیں کم ہیں کہ جس شخصیت کے لئے یہ سب ہو رہا ہے وہ یکتائے روز گار ہے، لیکن کاش ہماری تھوڑی توجہ اس بات پر بھی ہو جائے کہ جس شخصیت کی ولاد ت کا جشن ہم منا رہے ہیں اسکی کتاب بالکل اسی کی طرح تنہا و اکیلی ہے ، ہمارے درمیان ویسے ہی جیسے علی علیہ السلام تنہا تھے نیزوں پر قرآن اٹھانے والوں کے درمیان ، آج نھج البلاغہ تنہا و اکیلی ہے علی ع علی کے نعروں کے درمیان حیدر حیدر کے نعروں کے درمیان ، کیا ہی مزہ دوبالا ہو جائے اور ان نعروں میں ایک نئی روح دوڑ جائِے اگر ہم ان نعروں کے ساتھ نھج البلاغہ کے تعلیمات پر بھی کچھ توجہ کر لیں ، ۱۳ رجب کی اس عظیم تاریخ میں جب ہر سو خوشیوں کے میلے ہیں اگر ہم نھج البلاغہ کو اس کی غربت سے نکالنے کے لئے ایک قدم بھی اٹھا سکےتو شاید علی علیہ السلام بھی ہمیں مسکرا کر گلیں لگا کہ مرحبا میرے چاہنے والے تونے میری ولادت کی خوشی ویسے منائی جیسی میں چاہتا تھا ۔۔۔۔  

__________________& 

🌹🌺🌺🌺

بقلم: سید نجیب الحسن زیدی

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

امام ھادی النقی علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر رھبر انقلاب کا خطاب

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 4 جنوری 2025 کو حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے یوم شہادت کی مجلس کے اختتام پر مختصر خطاب کیا اور اس بات پر خصوصی تاکید فرمائی کہ امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کی زندگی پر خاص تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خطاب حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

کسی بھی دور میں، امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور سے آخر تک، پورے عالم اسلام میں، حضرت امام جواد (امام محمد تقی) حضرت امام ہادی(امام علی نقی) اور حضرت امام حسن عسکری (علیہم السلام) کے دور سے زیادہ، کسی بھی دور میں، کمیت اور کیفیت، کسی بھی لحاظ سے اسلام اتنا نہیں پھیلا ہے؛ یہ فروغ انہیں تین عظیم ہسیتوں کا کارنامہ ہے۔ حضرت امام ہادی اور حضرت امام جواد علیہما السلام کے دور میں بغداد اہل تشیع کا مرکز تھا۔ فضل بن شاذان کہتے ہیں کہ میں جب بغداد پنچا تو مسجد شیعہ محدثین سے بھری ہوئی تھی جن کا روایت کا حلقہ تھا اور وہ روایات نقل کیا کرتے تھے۔ یعنی حالت یہ تھی۔ بغداد میں ایک طرح سے اور کوفے میں ایک طرح سے، ان عظیم ہستیوں نے بڑی کوششیں کی ہیں۔

  یہ فروغ اس لئے تھا کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ شیعہ تعلیمات ان عظیم ہستیوں کی زبان سے بیان ہوں اور فروغ پائیں۔ یہ کام حضرت ہادی (علیہ السلام) نے انجام دیا۔ زیارت جامع کے ذریعے بھی جو غیر معمولی ہے اور یوم غدیر پر پڑھی جانے والی زیارت امیر المومنین کے ذریعے بھی۔ آپ دیکھیں کہ اس زیارت میں جو فضائل امیرالمومنین (علیہ السلام) کے بارے میں ہے، آیات قرآنی سے کتنا استفادہ کیا گیا ہے! یہ حضور ذہنی، یہ بیان پر تسلط اور اس شکل میں حقائق کا بیان، حضرت امام ہادی (علیہ السلام) کے علاوہ، ایک امام معصوم کے علاوہ کس اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کام ان عظیم ہستیوں نے انجام دیے ہیں۔ اگر حضرت امام ہادی (علیہ السلام) کی مساعی نہ ہوتیں تو آج ہمارے پاس زیارت جامعہ نہ ہوتی اور وہ منفرد تعلیمات جو اس زیارت میں ہیں، شیعوں کے پاس نہ ہوتیں۔

  بعض لوگوں نے تاریخ پڑھی ہے لیکن حدیث نہیں پڑھی ہے اور ائمہ علیہم السلام کے ان کلمات سے واقف نہیں ہیں جو ان روایات میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے کام کا سب سے بڑا نقص یہی ہے۔ ائمہ کی تاریخ کو بھی سب سے زیادہ انہی احادیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی زندگی میں، جگہ جگہ اور ان کی وصیتوں سے (سمجھا جا سکتا ہے) کہ ان میں سے ہر ایک پر کیا گزری ہے۔ خود حضرت امام ہادی (علیہ السلام) کی وصیت میں ایک حیرت انگیز بیان پایا جاتا ہے۔ یقینا آپ نے کافے میں ملاحظہ فرمایا ہے کہ احمد بن محمد بن عیسی کا  موثرکردار ہے، انہوں نے کام کیا ہے، بات کہی ہے اور بحث کو مباہلے تک لے گئے ہیں اور اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جو بہت اہم ہیں۔

ہماری تاریخ نویسی میں،  ہماری کتابوں میں، حتی منبروں سے  ہماری تقاریر میں، ان تین ہستیوں (اماموں) کا نام بہت کم لیا جاتا ہے، ان پر کم تحقیق ہوتی ہے اور کم کام کیا جاتا ہے۔ بہت مناسب ہوگا کہ کچھ لوگ ان تین عظیم ہستیوں کی زندگی کے بارے میں کام کریں، تحقیق کریں اور لکھیں۔ البتہ میں نے حال ہی میں ایک ناول میں دیکھا ہے کہ حضرت امام جواد علیہ السلام کا ایک معجزہ بیان کیا گیا ہے؛ (لیکن) کم ہے؛ اس سے زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے آرٹ اور فن کے  شعبے میں بھی اس سلسلے میں کام کئے جائیں، ان  شاء اللہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

دعای ماه رجب المرجب

دعای ماه رجب المرجب

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

این الرجبیون ؟ رجب والے کھاں ھیں؟

 

 

*🌺 رجب المرجب کا مہینہ 🌺*
*`اَینَ الَرّجَبِیُّونُ،؟ کہاں ہیں اہل رجب؟؟`*
*اَینَ الَرّجَبِیُّونُ،؟ کہاں ہیں اہل رجب؟؟*
جب قیامت ہوگی تو عرش سے ایک منادی ندا دے گا، رجبیون (اہل رجب )کہاں ہیں۔؟؟ اسوقت کچھ لوگ اٹھیں گے، جنکے چہرے چمک رہے ہونگے۔ انکے سروں پر بادشاہوں کی طرح گوہر و موتی اور یاقوت کے تاج ہونگے، ان میں سے ہر ایک کی دائیں طرف ہزار فرشتے اور بائیں طرف ہزار فرشتے ہونگے اور وہ کہہ رہے ہونگے، اے خدا کے بندے کرامت خدا تیرے لئے مبارک ہو۔ اسکے بعد خدا کی طرف سے ندا آئے گی، اے میرے بندے اور میری کنیزوا، میری عزت و جلالت کی قسم، تمہارے مقام کو بہت محترم اور اور تمہاری جزا کو بہت فراوان قرار دونگا، جنت کے کچھ ایسے گھر تمہارے نام کر دونگا، جنکے نیچے نہریں جاری ہونگیں، جس میں ہمیشہ رہوگے، یہ نیک عمل کرنے والوں کے لئے بہترین اجر ہے
یوں تو سارے ایام خداوند متعال کے ہیں اور خدا ہی کی مخلوق ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض مہینوں اور ایام کو خاص فضیلت اور شرافت دی گئی ہے۔ ماہ رجب، شعبان اور رمضان کی فضیلت کے بارے میں بہت زیادہ روایات وارد  ہوئی ہیں، حتیٰ کہ ماہ رجب کے بارے میں یہاں تک ملتا ہے کہ کوئی بھی مہینہ حرمت، فضیلت اور شرافت کے لحاظ سے اس مہینے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ یہ مہینہ ان چار مہینوں میں سے ہے، جن میں کافروں سے بھی جنگ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ 🔰پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا "رَجَبٌ شَهْرُ اللَّهِ، وَشَعْبَانُ شَهْرِی، وَ رَمَضَانُ شَهْرُ أُمَّتِی»؛"(1) "رجب خدا کا مہینہ، شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔" جس نے اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھا، یہ خدا کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے اور اس سے عذاب الہیٰ دور ہوتا ہے اور جہنم کے دروازے اس کے لئے بند ہوتے ہیں۔

🍀امام کاظم علیہ السلام سے روایت ہے: "رَجَبٌ نَهَرٌ فِی اَلْجَنَّةِ أَشَدُّ بَیَاضاً مِنَ اَللَّبَنِ وَ أَحْلَى مِنَ اَلْعَسَلِ مَنْ صَامَ یَوْماً مِنْ رَجَبٍ سَقَاهُ اَللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْ ذَلِکَ اَلنَّهَرِ." رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھی ہے، جس نے اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو اس نہر سے سیراب کرے گا۔"(2) 🌈پیغمبر کی ایک اور روایت ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں: اِنّ فِی الجَنَّتِہ قَصرَاً لایَدخُلُہ اِلّا صَوّامُ رَجَب، "جنت میں ایک محل ہے، اس میں رجب میں روزہ رکھنے والوں کےعلاوہ کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔"(3) 💦 امام کاظم علیہ السلام سے مروی ہے کہ رَجَب شَہرٌ عَظِیمٌ یُضَاعَفُ فِیہ الحَسَنَاتُ وَیَمحُوا فَیہ السَّیِّئاتِ "رجب ایک بہت عظیم مہینہ ہے کہ خداوند عالم اس میں نیکیوں کو دگنا اور گناہوں کو محو کر دیتا ہے۔" 📌پیغمبر صلی الله علیه وآلہ وسلم فرماتے ہیں: رَجَبٌ شَهرُ اللّه ِالأصَبُّ یَصُبُّ اللّه ُ فِیهِ الرَّحمَةَ عَلى عِبادِهِ؛ "رجب خدا کی رحمتوں کی بارش برسنے کا مہینہ ہے، خداوند اس مہینے میں اپنی رحمتیں برساتا ہے۔"(4)

📚 مرحوم شیخ صدوق نے کتاب فضائل الاشہر الثلاثہ میں روایت نقل کرتے ہیں: "مَنْ صَامَ یَوْماً مِنْ رَجَبٍ فِی أَوَّلِهِ أَوْ فِی‏ وَسَطِهِ أَوْ فِی آخِرِهِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ وَ مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ مِنْ رَجَبٍ فِی أَوَّلِهِ وَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ فِی وَسَطِهِ وَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ فِی آخِرِهِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ وَ مَنْ أَحْیَا لَیْلَةً مِنْ لَیَالِی رَجَبٍ أَعْتَقَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ وَ قَبِلَ شَفَاعَتَهُ فِی سَبْعِینَ أَلْفَ رَجُلٍ مِنَ الْمُذْنِبِینَ وَ مَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فِی رَجَبٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ أَکْرَمَهُ اللَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِی الْجَنَّةِ مِنَ الثَّوَابِ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَ لَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ" "جس نے رجب کے شروع میں ایک دن روزہ رکھا یا درمیان میں ایک دن رکھا یا آخر میں روزہ رکھا، اس کے گذشتہ اور آئندہ کے گناہوں کو بخش دیا جائے گا اور جس نے رجب کے شروع اور درمیان اور آخر میں تین تین دن روزہ رکھا، اس کے گذشتہ اور آئندہ کے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے اس مہینے کی کسی رات میں احیاء کیا (یعنی  پوری رات خدا کی عبادت میں مصروف رہا) خدا اسے جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا اور ستر ہزار گناہگاروں کی  شفاعت قبول کرے گا، جس نے رجب میں رضائے خدا کی خاطر صدقہ دیا، خدا اس کو جنت میں اس قدر عزت دے گا، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوگی نہ کسی کان نے سنی ہوگی، نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا ہوگا۔"(5)

 ☀️امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کا مہینہ ہے۔۔
پس اس مہینے میں مغفرت طلب کریں، خدا مہربان اور مغفرت کرنے والا ہے اور رجب کو اصبّ کہا گیا ہے کیونکہ اس مہینے میں اللہ کی طرف سے رحمتیں بکثرت نازل ہوتی ہیں۔ پس بہت زیادہ استغفراللہ و اسئلہ التوبہ پڑھا کرو(6) *💧رجب کی فضیلت امام  رضا علیہ السلام کی نظر میں*  حسن ابن علی ابن فضال امام رضا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جس نے رجب کی پہلی کو ثواب اور جزا کے لئے  روزہ رکھا اس پر جنت واجب ہے اور جس نے مہینے کے درمیان میں روزہ رکھا، اللہ ربیعہ اور مصر کے برابر (جو کہ دو بڑے بڑے قبیلے تھے) شفاعت کرائے گا، جس نے آخر رجب میں ایک دن روزہ رکھا، خدا اس کو اہل بہشت میں سے قرار دیتا ہے اور اس کے والدین، اولاد، بہن بھائیوں، چچاوں، پھوپھیوں ماموں، خالاوں، دوستو اور ہمسایوں تک کی شفاعت قبول کرتا ہے، اگرچہ ان میں کوئی جہنم کا مستحق ہی کیوں نہ ہو۔"(7)

❄️رسول خدا سے منقول ہے: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى نَصَبَ فِی السَّمَاءِ السَّابِعَهِ مَلَکاً یُقَالُ لَهُ الدَّاعِی فَإِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَجَبٍ یُنَادِی ذَلِکَ الْمَلَکُ کُلَّ لَیْلَهٍ مِنْهُ إِلَى الصَّبَاحِ طُوبَى لِلذَّاکِرِینَ طُوبَى لِلطَّائِعِینَ وَ یَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا جَلِیسُ مَنْ جَالَسَنِی وَ مُطِیعُ مَنْ أَطَاعَنِی وَ غَافِرُ مَنِ تَغْفَرَنِی الشَّهْرُ شَهْرِی وَ الْعَبْدُ عَبْدِی وَ الرَّحْمَهُ رَحْمَتِی فَمَنْ دَعَانِی فِی هَذَا الشَّهْرِ أَجَبْتُهُ وَ مَنْ سَأَلَنِی أَعْطَیْتُهُ وَ مَنِ اسْتَهْدَانِی هَدَیْتُهُ وَ جَعَلْتُ هَذَا الشَّهْرَ حَبْلًا بَیْنِی وَ بَیْنَ عِبَادِی فَمَنِ اعْتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إِلَیَّ.»(8) "اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے کہ جس کو داعی کہا جاتا ہے، جب ماہ رجب کا مہینہ آتا ہے تو وہ فرشتہ رات کے شروع سے لے کر صبح تک ندا دیتا رہتا ہے، خوش قسمت ہیں خدا کو یاد کرنے والے، خوش قسمت ہیں اطاعت کرنے والے، اللہ فرماتا ہے میں اس کا ہمنشین ہوں، جو میرا ہمنشین ہے، میں اس کا مطیع ہوں جو میرا مطیع  ہے۔ میں اس کی مغفرت کرنے والا ہوں، جو مغفرت کا تقاضا کرتا ہے۔ مہینہ میرا مہینہ ہے، رحمت میری رحمت ہے، جس نے مجھے اس مہینے میں پکارا میں قبول کروں گا اور جس نے مجھ سے کوئی چیز طلب کی، اسے عطاء کروں گا اور جو مجھ سے ہدایت طلب کرے، میں اس کی ہدایت کرونگا۔ اللہ نے رجب کے مہینے کو اپنے اور بندوں کے درمیان رسی اور وسیلہ قرار دیا ہے، جس نے بھی اس رسی کو مضبوطی سے پکڑا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔۔"

🌼مرحوم شیخ صدوق سے ایک اور روایت نقل ہوئی ہے: "إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ نَادَى مُنَادٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ أَیْنَ الرَّجَبِیُّونَ فَیَقُومُ أُنَاسٌ یُضِی‏ءُ وُجُوهُهُمْ لِأَهْلِ الْجَمْعِ عَلَى رُءُوسِهِمْ تِیجَانُ الْمُلْکِ مُکَلَّلَةً بِالدُّرِّ وَ الْیَاقُوتِ مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَلْفُ مَلَکٍ عَنْ یَمِینِهِ وَ أَلْفُ مَلَکٍ عَنْ یَسَارِهِ یَقُولُونَ هَنِیئاً لَکَ کَرَامَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ یَا عَبْدَ اللَّهِ فَیَأْتِی النِّدَاءُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ عِبَادِی وَ إِمَائِی وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی لَأُکْرِمَنَّ مَثْوَاکُمْ وَ لَأُجْزِلَنَّ عَطَاکُمْ [عَطَایَاکُمْ‏] وَ لَأُوتِیَنَّکُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِینَ فِیها نِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِینَ إِنَّکُمْ تَطَوَّعْتُمْ بِالصَّوْمِ لِی فِی شَهْرٍ عَظَّمْتُ حُرْمَتَهُ وَ أَوْجَبْتُ حَقَّهُ مَلَائِکَتِی أَدْخِلُوا عِبَادِی وَ إِمَائِی الْجَنَّةَ ثُمَّ قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع هَذَا لِمَنْ صَامَ مِنْ رَجَبٍ شَیْئاً وَ لَوْ یَوْماً وَاحِداً فِی [مِنْ‏] أَوَّلِهِ أَوْ وَسَطِهِ أَوْ آخِرِهِ."

"جب قیامت ہوگی تو عرش سے ایک منادی ندا دے گا، رجبیون (اہل رجب )کہاں ہیں۔؟؟ اس وقت کچھ لوگ اٹھیں گے، جن کے چہرے چمک رہے ہونگے۔ ان کے سروں پر بادشاہوں کی طرح گوہر و موتی اور یاقوت کے تاج ہونگے، ان میں سے ہر ایک کی دائیں طرف ہزار فرشتے اور بائیں طرف ہزار فرشتے ہونگے اور وہ کہہ رہے ہوں گے، اے خدا کے بندے کرامت خدا تیرے لئے مبارک ہو۔ اس کے بعد خدا کی طرف سے ندا آئے گی، اے میرے بندے اور میری کنیزوا، میری عزت و جلالت کی قسم، تمہارے مقام کو بہت محترم اور اور تمہاری جزا کو بہت فراوان قرار دونگا، جنت کے کچھ ایسے گھر تمہارے نام کر دونگا، جن کے نیچے نہریں جاری ہونگیں، جس میں ہمیشہ رہوگے، یہ نیک عمل کرنے والوں کے لئے بہترین اجر ہے، تم نے روزے کے ذریعے اس مہینے میں میری  اطاعت کی ہے، جس کی حرمت کو میں نے بہت عظیم بنایا ہے، میں نے اپنے فرشتوں پر واجب قرار دیا کہ ان میں میرے بندوں اور کنیزوں کو جنت میں داخل کریں۔ اس کےبعد امام صادق علیہ السلام  نے فرمایا، یہ اس کے لئے ہے، جس نے ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھا، چاہے اول رجب کو یا درمیان میں یا مہینے کے  آخر میں۔۔۔"(9)  

🌟ماہ رجب کے اعمال*
ماہ رجب کے بہت سے اعمال وارد ہوئے ہیں، ان سب کو اس مختصر تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ مفاتیح الجنان اور دیگر دعاوں کی کتابوں میں موجود ہیں، ہم اختصار کے ساتھ چند کا ذکر کرتے ہیں۔ اس مقدس مہینے میں۔۔
(1) زیادہ سے زیادہ "استغفراللہ واسئلہ التوبہ" پڑھنا۔
(2) سو 100 بار "سبحان لا الہ الجلیل سبحان من لاینبغی۔۔۔۔۔"تا آخر۔
(3) رجب کے دنوں کی خاص دعاؤں کا پڑھنا، جو کہ مفاتیح الجنان میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں۔
(4)ہر روز ستر بار صبح کے وقت اور دن کے آخر میں 70 بار "استغفراللہ و اتوب الیہ" پڑھنا، جب تمام کرے تو ہاتھوں کو بلند کرکے یہ دعا پڑھے "اللھم غفرلی و تب علی۔۔۔۔۔"(مفاتیح)
(5) ہر شب و روز تین مرتبہ حمد تین مرتبہ سورہ آیت الکرسی تین مرتبہ قل یا ایھاالکافرون تین مرتبہ توحید تین مرتبہ علق تین مرتبہ سورہ ناس پڑھنا۔
(6) ہر شب ہزار بار لا الہ الا اللہ
(7) ہر شب دو رکعت نماز پڑھی جائے، ہر رکعت میں حمد ایک بار سورہ کافرون تین بار، نماز کے بعد لا الہ الا اللہ ۔۔۔ (باقی مفاتیح کی طرف مراجعہ فرمائیں)
(8) ہر فریضہ نماز کے بعد اس معروف دعا کو پڑھنے کی بڑی تاکید ہوئی ہے « ۔۔یَا مَنْ أَرْجُوهُ لِکُلِّ خَیْرٍ وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ (مِنْ) کُلِّ شَرٍّ یَا مَنْ یُعْطِی الْکَثِیرَ بِالْقَلِیلِ یَا مَنْ یُعْطِی مَنْ سَأَلَهُ‏۔۔۔(تاآخر۔۔مفاتیح ) »
(9) ایام البیض کے تیسرے دن یعنی پندرہ رجب کو معروف اور مجرب عمل عمل ام داود۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*حوالہ جات*
(1) وسائل الشیعة، ج‏۱۰، ص۴۹۳
(2) من لایحضره الفقیه ج2 ص92
(3) بحارج97 ص47
(4) وسائل الشیعة، ج‏۱۰، ص۴۹۳
(5) عیون اخبار رضا ج2 ص71
(6) فضائل الاشھرالاثلاثہ، ص 38، حدیث 15
(7) مفاتیح الجنان، ص 228
(8) عیون اخبار رضا شیخ صدوق ج1، ص226
(9) مستدرک الوسائل ج7، ص535
(10) شیخ صدوق، فضائل الأشهر الثلاثة، صفحه 31

__________________& 
🌹🌺🌺🌺
:CHANNEL join
https://whatsapp.com/channel/0029VaMYsUnBPzjO1WllmQ3V
 join:-
https://chat.whatsapp.com/IEOAJCq2gXm4bUKiaiUCPg

:Blog.ir address
https://quranandahlulbaitchannelkargil.blog.ir/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت اور اسکے آداب

قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت اور اس کے آداب 

​​​

لفظ قرآن کی اصل یا مصدر"قراٗ" ہے، جس کے معنی ہیں "پڑھی جانے والی کتاب۔ واقعی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہے۔

یہ تمام لوگوں، مسلم اور غیر مسلم، کو معلوم ہے کہ قرآن مجید، اللہ سبحان و تعالٰی کا پاک کلام ہے جو معبود نے قیمت تک آنے والے انس و جن کی رہنمائی کے لیے خاتم النبیین ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ قرآن حکیم کو لوح محفوظ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو لوح محفوظ کہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ رب العزت کے جو فیصلے ملا اعلٰی یعنی آسمانوں کے اوپر تحریر ہیں وہ کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہونے کے ساتھ شیاطین کے شر سے محفوظ ہیں۔ اس لیے اس کو لوح کہا جاتا ہے۔

قرآن کریم علم، خیر و خوبی کا سرچشمہ ہے۔ ہم میں جتنا علم، ظرف، صلاحیت اور معرفت الٰہی ہوگی اس کے مطابق ہی ہم مانگتے و مطالبہ کرتے ہیں اور پھر وہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ اگر دنیا کی بادشاہی اور روئے زمین کی حکومت مانگیں تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرش الٰہی کے قریب پہنچنا ہے تو وہاں بھی پہنچائے گا۔ یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے چند قطرے کی تمنا کرتے ہیں ورنہ سمندر تو دریا عطاء کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ یہ قرآن حکیم اجتماعی ترقی کے علاوہ انفرادی سربلندی بھی بخشی ہے۔

قرآن حکیم جن کے لئے نزول کیا گیا ان کو، بہرحال، فضل الق ، فضیلت حامل قرآن، تعلیم قرآن، حفظ قرآن، قرآت قرآن، ثواب قرآت قرآن، تلاوت کو ثواب، تلاوت ایصال ثواب، کتنے دیر تلاوت قرآن کی جائے، ایک دفعہ میں کتنی آیات مبارکہ پڑھی جائے، قرآن مجید کس زبان میں پڑھی جائے اور اس کی تلاوت کی فضیلت کیا ہے ان سب باتوں پر تحریر و عمل کرنے کے ساتھ آداب تلاوت قرآن کی آشنائی نہایت اہمیت کے حامل ہے۔

آداب تلاوت قرآن کریم کے لئے جن باتوں پر غور کرنا لازمی ہے ان میں اہم ہیں: طہارت و پاکیزگی، منھ کی پاکیزگی، صفائی اور ظاہری آرائش، کس حالت میں چھونے کا حکم، تلاوت میں خلوص، خلوص کے اجزاء، تلاوت کلام پاک سے پہلے کی پہلی و دوسری دعا، استعاذہ، استعاذہ کے معنی، الفاظ، حقیقی استعاذہ، بسملہ، بسم اللہ اسلامی شعار، تلاوت قرآن میں بسم اللہ کا حکم، گھر اور مسجد میں تلاوت کی فضیلت، ناظرہ تلاوت اور اس کج اثرات، قرآن کو دیکھنا عبادت، آہستہ اور اونچی آواز میں تلاوت، اونچی آواز سے تلاوت کا فائدہ، خوبصورت آواز میں تلاوت، اچھی آواز قرآن کی زینت، قرآن کو خوبصورتی کے ساتھ پڑھنے کی تاکید، عربی لہجے میں تلاوت، قرآن کی موسیقیت، روزانہ تلاوت، ہر حالت میں قرآن کی تلاوت، اس کے تلاوت کی مقدار و اوقات، اس کے معنی پر توجہ دینا اور تدبر و تفکر کرنا اور ختم قرآن کے بعد کی دعا وغیرہ امور و عناصر پر توجہ ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ اور قرآن ناطق علیہم السلام کے ارشادات کے مطابق جہاں قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں تاکید کی گئی ہے ساتھ ہی آداب تلاوت قرآن کا پابند ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن تمام انبیائے خدا کی تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ ہے بلکہ اس دے بھی بڑھ کر قرآن تمام موجودات اور مخلوقات سے بر تر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: "قرآن اللہ کے علاوہ تمام اشیاء سے افضل ہے۔" جب حقیقت یہ ہے اور قرآن کی اتنی بڑی منزلت ہے تو یقیناٌ جو کچھ اس میں ہے وہ مسلمانوں کی زندگی کو سعادت مندی سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ آداب علم سے آگاہی حاصل کر کے اس پر عمل کرے۔

قرآن کریم کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمان پڑھیں: "مومن کے لئے شان یہ ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم حاصل کیے بغیر نہیں مرے یا قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں ہی مر جائے۔"

سورۃ مزمل کی آیت مبارکہ نمبر 20 میں ارشاد باری تعالٰی ہے "اب تم جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔" خداوند مہربان ہماری سعادت اور ہدایت چاہتا ہے اسی لئے ہمیں نصیحت کرتا ہے جس قدر بھی کر سکو ہر روز تھوڑا تھوڑا سہی مگر قرآن ضرور پڑھو۔

سورۃ منافقون کی آیت مبارکہ نمبر 8 میں ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے "ولللہ العزۃ و لرسولہ و للمومنین" عزت صرف اللہ، اس کے رسول اور مومنون کے لئے ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کو اس طرح پڑھے جیسا کہ آئمہ دین نے حکم دیا ہے اور اس پر عمل کرے تو متقین و مومنین کی صفت میں شامل ہوگا اور دنیا میں سر بلندی، عزت اور آخرت میں کامیابی اور نجات حاصل کرے گا۔ یہ اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تلاوت قرآن کی فضیلت و اہمیت بیان فرماتے ہوئے اپنے آبائے کرام کی سند سے حضور اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم پر قرآن کی تلاوت لازمی ہے کیونکہ بہشت کے درجات کی تعداد قرآن کی آیات کے درجات کے برابر ہے۔ جب قیامت برپا ہو جائے گی تو قارئ قرآن سے کہا جائے گا، قرآن پڑھتا جا اور بلند درجہ پر چڑھتا جا جب بھی وہ ایک آیت کی تلاوت کرے گا ایک درجہ اوپر بلند ہوگا۔ (وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 842)

تلاوت قرآن پاک کے آداب میں سب سے پہلا ادب قاری کی طہارت اور پاکیزگی ہے۔ قرآن حکیم میں ذکر ہے کہ قرآن کو وہی لوگ چھوٹے ہیں جو پاک ہیں۔ طہارت سے مراد وضو اور غسل ہے۔ اس حکم الٰہی کا فلسفہ روشن اور واضح ہے کہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے۔ اس کا احترام کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اسی لیے تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ قرآن کے حروف کو چھونے سے پہلے وضو کریں۔ قرآن کی راہ صاف و پاک رکھو، منھ کی پاکیزگی اور مسواک کے ذریعہ۔

مسلمانوں پر لازم ہے کہ پاک و صاف بدن اور پاکیزہ لباس پہن کر قرآن کی تلاوت کریں۔ قرآن کی تلاوت میں اخلاص، صرف خدا کی خوشنودی اور رضا کو مد نظر رکھے۔ امام صادقؑ نے فرمایا "بےشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔" حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے فرمایا جو کوئی صرف اور صرف خدا کی خوشنودی اور دین کی سمجھ حاصل کرنے کے لئے قرآن کی تلاوت کرے تو اس کا اجر اتنا ہے جتنا اجر فرشتوں، اللہ کے نبیوں اور اس کے رسولوں کے لئے مقرر ہے۔ (وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 838)

قرآن کی تلاوت کرنے اور قرآن کی فضا میں داخل ہونے سے پہلے تیاری کرنی چاہیے اور اس تیاری کا ایک ذریعہ دعا ہے۔ امام صادقؑ تلاوت قرآن کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے "۔۔۔۔۔۔میرے معبود! میری تلاوت کو ایسی تلاوت قرار نہ دے جس میں غور و فکر نہ ہو بلکہ مجھے توفیق دے کہ میں قرآن کے احکام اور اس کی آیات پر غور و فکر کروں اور اس کی آیتوں کو اپنے اوپر نافذ کروں۔"

استعاذہ کے لئے یہ عبارت پڑھنے کا حکم ہے: "اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم" میں شیطان مردود سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔ خداوند متعال نے سورۃ نحل، آیت 98 میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگو۔ خدا کی نافرمانی کے دروازوں کو استعاذہ کے ذریعے بند کرو اور خدا کی اطاعت کے دروازوں کو بسم اللہ کے ذریعے کھولیں۔ (سفینتہ البحار، جلد 2، صفحہ 417)

حضرت آیت اللہ توسلی امام خمینی رحہ کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی کتاب میں تحریر کی ہے کہ امام خمینی رحہ ایک دن میں کم از کم تین مرتبہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔

قرآن مجید رحمت و نور اور نیک بختی کا سرچشمہ ہے لیکن ہم قرآن کی قصص، عبرت، سبق، ہدایت اور اس میں بتائی ہوئی راہوں کو چھوڑ کر یہود، نصارٰی، بت پرست اور مجوسی کی راہوں کو اختیار کر چکے ہیں۔ اللہ کو اپنا ولی، مولا، مالک مختار، قیامت، آخرت اور قرآن پر ایمان نہ رکھ کر 56 مسلم ممالک کے حکمران، حاجی، نمازی، قاری، حافظ اور مسجدوں و خانہ کعبہ کے امام امریکہ اور اسرائیل پر یقین کامل کیئے ہوئے ہیں۔ ظالموں کے ساتھ دوستی، تجارت، پٹرول، اسلحہ اور خوردنی اشیاء مہیا کر رہے ہیں۔ وضع و قطع، تراش و خراش، صورت و سیرت، تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدن، اخلاق و عادات، رفتار و گفتار، تجارت و اقتصادی معاملات اور حکومت و سلطنت غرض زندگی کے ہو شعبوں میں اس کا رخ قرآن صامت اور قرآن ناطق سے دوری اختیار کیے ہوا ہے حالانکہ رسول اکرم ﷺ کی حدیث پاک ہے کہ اس سے متمسک رہنے کے لیے فرمایا ہے اور آپؐ کی مشہور و معروف حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جو اس سے متمسک رہے گا وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگا۔

اے خدایا! ہم لوگوں کو عظمت قرآن اور تلاوت قرآن حکیم کے آداب سے آشنائی دے۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

نیک کاموں کی زینت؟

نیک کاموں کی زینت کیا ہے؟

 

امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 

فقیر کی زینت پاکدامنی ہے، غنی کی زینت شکر نعمت ہے، بلاء اور مصیبت کی زینت صبر ہے، علم کی زینت تواضع اور انکساری ہے، کلام کی زینت فصاحت ہے، روایت کی زینت اس کا تحفظ ہے، کشادہ چہرہ، کرم و سخاوت کی زینت ہے، عقل کی زینت ادب ہے، نیک کام کی زینت احسان نہ چتانا ہے، نماز کی زینت خشوع و عاجزی ہے، قناعت کی زینت فرض سے زیادہ انفاق کرنا ہے، متّقی اور پرہیزگار کی زینت خواہشات کا ترک کرنا ہے۔

 

  فصول المهمه، صفحہ 274/275

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ