امام محمد باقر (ع) اہلبیت کے پاکیزہ اور نورانی سلسلے کی ایک فرد ہیں۔ آپ کی ذات عالم اسلام کی وہ عظیم علمی ذات ہے جس نے قرآن کے حقائق پہلی بار اس واضح انداز میں بیان کئے اور علوم کی پرتوں کو کھولا اس لئے آپ کا لقب ''باقر العلوم ''قرار پایا۔
امام باقر علیہ السلام کی شخصیت اور انکے علمی کمالات
١۔ابتدائیہ:
قرآن ہمیں لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنہ کے ذریعہ خلقت کے بہترین نمونوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کوئی مکتب فکر اس وقت تک پائیدار نہیں ہوسکتا اگر اس میں کوئی عملی نمونہ نہ ہو۔ زیرِ نظر مقالے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ابو جعفر امام محمد باقر(ع) ؑساتویں معصوم اور پانچویں آفتاب امامت ہیں۔ ان کی زندگی تمام تر عقل و دانش سے تعبیر ہے اور اسی حوالے سے آپ کو باقر العلوم کہا جاتا ہے یعنی عقلی مشکلات کو شگافتہ کرنیوالے اور معرفت کی پیچیدگیوں کو آسان کرنیوالے ۔ آفتاب کی خصلت یہ ہے کہ وہ تاریکی کا پیچھا کرتا ہے اور جیسے ہی زمانہ کے افق پر جہل کے تاریک لمحات نمایاں ہوتے ہیں ان کو روشنی سے بدل دیتا ہے۔ امام محمد باقر (ع) کا سب سے بڑآ فیض ملوکیت کے ظلم و جور کے ماحول میں معرفت کے پیغام کو پھیلانا ہے۔
٢۔ مختصر احوال:
امام محمد باقر (ع) کی ولادت یکم رجب ٥٧ھ بمقام مدینہ ہوئی، سنہ پیدائش میں ٥٦تا ٥٩ ھ میں ٥٧ پر مورخین کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ اس لحاظ سے واقعہ کربلا کے وقت آپ کا سن ٤ سال تھا۔ یہ بھی ایک مصلحت خداوندی ہے کہ بیک وقت تین معصومین میدان کربلا میں موجود تھے۔ شاید یہ قدرت کی طرف سے اس بات کا انتظام ہے کہ روز حشرجب اس ظلم کا انصاف ہو تو دو معصومین بطور شاہد عینی موجود ہوں۔
ماں اور باپ کی جانب سے آپ کا شجرہ پاکیزہ ہے آپ کی والدہ فاطمہ بنت امام حسن علیہ السلام ہیں ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ پہلے علوی خاتون ہیں جن کے بطن سے علوی فرزند کی پیدائش ہوئی اس حوالہ سے آپ کو'' ابن الخیر تین'' بھی کہا جاتا ہے یعنی نیکوں کی اولاد ۔ (ذیشان حیدر جوادی۔١)
امام باقر (ع) کی دو ازواج تھیں ایک ام فروہ دختر قاسم بن محمد ابن ابی بکر اور دوسری ام حکیم دختر ولید بن مغیرہ ، ہر چند ام فروہ نسل ابو بکر سے تھیں لیکن اپنے والد قاسم کی طرف اماموں کے حق اور معصومین کی ولایت کی قائل تھیں۔ (احمد ترابی۔٢) امام محمد باقر (ع) کے ٥ فرزند یعنی امام صادق(ع) ( جن کی والدہ ام فروہ) عبداﷲ، ابراہیم، عبیداﷲ اور علی اور دو بہنیں زینب اور ام سلمہ تھیں۔
آپ کی شہادت ٧ ذی الحجہ ١١٤ھ میں واقع ہوئی جبکہ آپ کا سن ٥٧ سال کا تھا۔ ہشام بن عبدالملک نے زہر دیا اور امام کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی ۔
امام باقر (ع) کی زندگی کے واقعات کے سن و سال میں کچھ اتفاقی ربط اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ ٥٧ ھ کی ولادت کے لحاظ سے ٦١ھ میں واقعہ کربلا کے وقت آپ کی عمر ٤ سال تھی یعنی ابتدائی ٤ سال اپنے دادا امام حسین (ع) کے دور امامت میں گزارے۔ اس کے بعد ٦١ھ سے ٩٥ھ تک یعنی ٣٤ سال اپنے والد امام زین العابدین کے ساتھ گزارے اس طرح کل ٣٨ سال کا عرصہ ہے۔ ١١٤ھ میں شہادت کے لحاظ سے امام باقر (ع) کی امامت کا دورانیہ ١٩ سال بنتا ہے۔ (یعنی ٩٥ تا ١١٤ھ) اس طرح امام کی زندگی کے اہم واقعات کا دورانیہ (یعنی ١٩،٣٨،٥٧ سال) ١٩ کے ہند سے کے اضعاف ہیں۔ اور پھر ١٩ کا ہندسہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے حروف کا ہم عدد بھی ہے جن کے خواص پر بے شمار بحث کی گئی ہے۔ ہر علم کی ابتدا بسم اﷲ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے اور امام خود باقر العلوم ہیں۔ یہ ایک حسن اتفاق ہے۔ المختصر یہ کہ امام باقر ان بارہ اماموں میں شامل ہیں جن کو خالق کائنات نے نظام اسلام کی ترویج و تحفظ کے لئے منتخب کر کے ان کے حوالے امت کی ہدایت کا کام کیا ہے۔
٣۔ تاریخ کا سفر
امام باقر علیہ السلام کی شخصیت اور فیوض کے جائزہ کے لئے ہم تھوڑی دیر کے لئے تاریخ کے اوراق کے ہمسفر بن جاتے ہیں۔ یہ نظر آتا ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کے نتیجہ میں اس وقت کا عرب معاشرہ دو طبقوں میں بٹ گیا، ایک رسول کا ہمنوا اور دوسرا مخالف، دیکھتے دیکھتے آنحضرت کی رسالت کے ٢٣ سال گزر گئے۔ ذی الحجہ ١١ھ یعنی اپنی وفات سے ٢ ماہ قبل حضرت نے ''حکم بّلغ'' کی تعمیل میں حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کردیا۔ یوں تو اس اعلان پر بہت مبارکیں پیش کی گئیں لیکن دلوں کے راز سقیفہ میں کھل کر سامنے آگئے اور جو فیصلے ہوئے وہ سب جانتے ہیں اور پھر چشم روز گار نے دیکھا کہ ٢٥ سال کے عرصے میں امام وقت کو مدینہ میں اپنے ہی مکان میں محصور ہونا پڑا اور اہلبیت(ع) کے مخالفین کی ہمتیں اتنی بڑھ گئی کہ مولائے کائنات کو مسجد کوفہ میں حالت نماز میں شہید کردیا گیا۔ اس ٢٥ سال کے عرصہ میں ظلم و استبداد کے ایسے مناظر نظرآتے ہیں کہ ﷲ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے ہنستی بستی آبادیوں کو خدا اور رسول کے نام پر ویران کرتے چلے گئے۔ اسلامی مملکت کے وسعتوں میں اضافے نے غرض مندوں کی فوج در فوج کو اسلام کی طرف مائل کیا۔ اس تمام عرصہ میں واقعات کے دھاروں نے متذکرہ بالا دونوں گروہوں کو اپنے خود ساختہ اصول اور مقاصد میں پختگی پر مجبور کیا۔ بالخصوص سیرت شیخین کی اتباع ہیرو پرستی کے طور پر ابھر کر اسلام کے بیمار جسم میں سرایت کر گئی ، زمانہ کے رجحان کا انداز ہ اس حقیقت سے لگاسکتے ہیں کہ امیرالمومنین کی شہادت کے صرف ٢٠ سال بعد جب سانحہ کربلا واقعہ ہوا تو یزید کے لشکر کی تعداد ٣٠ ہزار سے ایک لاکھ تک بتائی جاتی ہے جبکہ فرزند رسول کے ساتھ صرف ٧٢ جاں نثار تھے ۔ اس دوران اسلام کی شکل اس طرح بگاڑ دی گئی کہ دربار شام میں سینکڑوں سر برآوردہ ہستیوں کی موجودگی میں یزید کو یہ کہنے کی جرات ہوئی کہ (نعوذ باﷲ) محمد نے ایک کھیل کھیلا تھا نہ کوئی وحی نہ خبر آئی تھی۔ شیعوں کے لئے معاویہ اور یزید کا ٢٤ سالہ دور بہت مشکل زمانہ تھا امام سجاد (ع) اور امام باقر (ع) مسلسل محاصرہ میں رہے۔ (محمد حسین طباطبائی۔٣)
متذکرہ ماحول کے باوجود شیعہ ائمہ نے رشد و ہدایت کے کارنامے انجام دیئے ہیں جو غیبت کبریٰ کے طویل زمانہ میں ہماری رہبری کے لئے روشنی کے مینار ہیں، امام باقر (ع) کی ایسی ہی چند خصوصیات اس مقالہ کی زینت ہیں۔ ان گزارشات کو ہم دلیل امامت سے شروع کرتے ہیں۔
٤۔ دلیل امامت :
شیعہ عقیدہ کے بموجب امامت کوئی انتخابی عہدہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک خدا دادی وصف ہے جس کا تعین خود ﷲ تعالیٰ کرتا ہے اور ایک امام اپنے بعد آنے والی شخصیت کی نشاندہی کرتا ہے اس عمل کو نص کہتے ہیں یعنی منشائے الہیٰ کا اظہار ، امام علی ابن الحسین مناسب اوقات پر اپنے فرزند محمد کی امامت کے متعلق بیان فرماتے تھے۔ (اصول کافی۔٤)
امام باقر کی دلیل امامت میں امام کے نام آنحضرت(ص) کے سلام کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ نے جابر ابن عبداﷲ انصاری کے ذریعہ امام باقر (ع) کو پہونچایا۔ اس سلام کی اہمیت یہ ہے کہ جس رسول کو سلام کرنا ساری انسانیت اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہو وہ ذات مقدس امام باقر (ع) کو سلام پہنچاتی ہے۔ جابر ابن عبداﷲ انصاری کا شمار معزز اصحاب رسول میں ہوتا ہے ۔ آبان بن تغلب جو کہ امام جعفر صادق(ع) کے صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ جابر مسجد میں اکثر صدا دیتے تھے۔ ''اے باقر العلم ، اے باقر العلم '' لوگوں کے پوچھنے پر جابر جواب دیتے تھے کہ رسول خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ تم اپنی عمر کے آخری حصہ میں میرے ایک فرزند سے ملاقات کرو گے جو میرا ہمنام ہوگا اور علوم حقائق کو شگافتہ کریگا۔ (اصول کافی)
محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ وہ جابرکے ہمراہ بیٹھے تھے تو امام سجاد اپنے کمسن بیٹے محمد کے ساتھ آئے اور امام نے اپنے فرزند سے کہا کہ اپنے چچا کے سر کا بوسہ لو، اسو قت جابر بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔ جابر کے پوچھنے پر امام نے فرمایا کہ یہ میرا بیٹا محمد ہے۔ جابر نے امام باقر کو اپنی آغوش میں لیا اور کہا کہ '' اے محمد رسول خدا نے تجھ کو سلام بھیجا ہے۔'' محمد باقر نے ''وعلیکم السلام‘‘ کہہ کر جواب دیا ۔ ( اسی قسم سے ملتی جلتی روایت احمد حجر مکی کی مشہورکتاب صوائق محرقہ میں بھی ملتی ہیں)۔
ان روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آنحضرت ان آنے والے حالات سے آگاہ تھے کہ عہد امامت سید سجاد(ع) تک پہونچنے تک امت کا مزاج اس قدر بگڑ جائیگا کہ امام مفترض الطاعۃ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا امام بنالیں گے۔