• قرآن و اهل البیت علیهم السلام || چینل کارگل لداخ •

؀ قرآن و اهل البیت علیهم السلام چینل کارگل لداخ ایک علمی، مذهبی، اجتماعی و فرهنگی فعالیت انجام دینے اور لوگوں کو قرآن و اھل البیت علیہم السلام کے دکھائے ھوئے راستے کی طرف حد امکان آشنا کرانے کا ذریعہ ہے

قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت اور اسکے آداب

قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت اور اس کے آداب 

​​​

لفظ قرآن کی اصل یا مصدر"قراٗ" ہے، جس کے معنی ہیں "پڑھی جانے والی کتاب۔ واقعی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہے۔

یہ تمام لوگوں، مسلم اور غیر مسلم، کو معلوم ہے کہ قرآن مجید، اللہ سبحان و تعالٰی کا پاک کلام ہے جو معبود نے قیمت تک آنے والے انس و جن کی رہنمائی کے لیے خاتم النبیین ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ قرآن حکیم کو لوح محفوظ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو لوح محفوظ کہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ رب العزت کے جو فیصلے ملا اعلٰی یعنی آسمانوں کے اوپر تحریر ہیں وہ کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہونے کے ساتھ شیاطین کے شر سے محفوظ ہیں۔ اس لیے اس کو لوح کہا جاتا ہے۔

قرآن کریم علم، خیر و خوبی کا سرچشمہ ہے۔ ہم میں جتنا علم، ظرف، صلاحیت اور معرفت الٰہی ہوگی اس کے مطابق ہی ہم مانگتے و مطالبہ کرتے ہیں اور پھر وہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ اگر دنیا کی بادشاہی اور روئے زمین کی حکومت مانگیں تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرش الٰہی کے قریب پہنچنا ہے تو وہاں بھی پہنچائے گا۔ یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے چند قطرے کی تمنا کرتے ہیں ورنہ سمندر تو دریا عطاء کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ یہ قرآن حکیم اجتماعی ترقی کے علاوہ انفرادی سربلندی بھی بخشی ہے۔

قرآن حکیم جن کے لئے نزول کیا گیا ان کو، بہرحال، فضل الق ، فضیلت حامل قرآن، تعلیم قرآن، حفظ قرآن، قرآت قرآن، ثواب قرآت قرآن، تلاوت کو ثواب، تلاوت ایصال ثواب، کتنے دیر تلاوت قرآن کی جائے، ایک دفعہ میں کتنی آیات مبارکہ پڑھی جائے، قرآن مجید کس زبان میں پڑھی جائے اور اس کی تلاوت کی فضیلت کیا ہے ان سب باتوں پر تحریر و عمل کرنے کے ساتھ آداب تلاوت قرآن کی آشنائی نہایت اہمیت کے حامل ہے۔

آداب تلاوت قرآن کریم کے لئے جن باتوں پر غور کرنا لازمی ہے ان میں اہم ہیں: طہارت و پاکیزگی، منھ کی پاکیزگی، صفائی اور ظاہری آرائش، کس حالت میں چھونے کا حکم، تلاوت میں خلوص، خلوص کے اجزاء، تلاوت کلام پاک سے پہلے کی پہلی و دوسری دعا، استعاذہ، استعاذہ کے معنی، الفاظ، حقیقی استعاذہ، بسملہ، بسم اللہ اسلامی شعار، تلاوت قرآن میں بسم اللہ کا حکم، گھر اور مسجد میں تلاوت کی فضیلت، ناظرہ تلاوت اور اس کج اثرات، قرآن کو دیکھنا عبادت، آہستہ اور اونچی آواز میں تلاوت، اونچی آواز سے تلاوت کا فائدہ، خوبصورت آواز میں تلاوت، اچھی آواز قرآن کی زینت، قرآن کو خوبصورتی کے ساتھ پڑھنے کی تاکید، عربی لہجے میں تلاوت، قرآن کی موسیقیت، روزانہ تلاوت، ہر حالت میں قرآن کی تلاوت، اس کے تلاوت کی مقدار و اوقات، اس کے معنی پر توجہ دینا اور تدبر و تفکر کرنا اور ختم قرآن کے بعد کی دعا وغیرہ امور و عناصر پر توجہ ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ اور قرآن ناطق علیہم السلام کے ارشادات کے مطابق جہاں قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں تاکید کی گئی ہے ساتھ ہی آداب تلاوت قرآن کا پابند ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن تمام انبیائے خدا کی تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ ہے بلکہ اس دے بھی بڑھ کر قرآن تمام موجودات اور مخلوقات سے بر تر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: "قرآن اللہ کے علاوہ تمام اشیاء سے افضل ہے۔" جب حقیقت یہ ہے اور قرآن کی اتنی بڑی منزلت ہے تو یقیناٌ جو کچھ اس میں ہے وہ مسلمانوں کی زندگی کو سعادت مندی سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ آداب علم سے آگاہی حاصل کر کے اس پر عمل کرے۔

قرآن کریم کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمان پڑھیں: "مومن کے لئے شان یہ ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم حاصل کیے بغیر نہیں مرے یا قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں ہی مر جائے۔"

سورۃ مزمل کی آیت مبارکہ نمبر 20 میں ارشاد باری تعالٰی ہے "اب تم جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔" خداوند مہربان ہماری سعادت اور ہدایت چاہتا ہے اسی لئے ہمیں نصیحت کرتا ہے جس قدر بھی کر سکو ہر روز تھوڑا تھوڑا سہی مگر قرآن ضرور پڑھو۔

سورۃ منافقون کی آیت مبارکہ نمبر 8 میں ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے "ولللہ العزۃ و لرسولہ و للمومنین" عزت صرف اللہ، اس کے رسول اور مومنون کے لئے ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کو اس طرح پڑھے جیسا کہ آئمہ دین نے حکم دیا ہے اور اس پر عمل کرے تو متقین و مومنین کی صفت میں شامل ہوگا اور دنیا میں سر بلندی، عزت اور آخرت میں کامیابی اور نجات حاصل کرے گا۔ یہ اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تلاوت قرآن کی فضیلت و اہمیت بیان فرماتے ہوئے اپنے آبائے کرام کی سند سے حضور اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم پر قرآن کی تلاوت لازمی ہے کیونکہ بہشت کے درجات کی تعداد قرآن کی آیات کے درجات کے برابر ہے۔ جب قیامت برپا ہو جائے گی تو قارئ قرآن سے کہا جائے گا، قرآن پڑھتا جا اور بلند درجہ پر چڑھتا جا جب بھی وہ ایک آیت کی تلاوت کرے گا ایک درجہ اوپر بلند ہوگا۔ (وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 842)

تلاوت قرآن پاک کے آداب میں سب سے پہلا ادب قاری کی طہارت اور پاکیزگی ہے۔ قرآن حکیم میں ذکر ہے کہ قرآن کو وہی لوگ چھوٹے ہیں جو پاک ہیں۔ طہارت سے مراد وضو اور غسل ہے۔ اس حکم الٰہی کا فلسفہ روشن اور واضح ہے کہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے۔ اس کا احترام کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اسی لیے تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ قرآن کے حروف کو چھونے سے پہلے وضو کریں۔ قرآن کی راہ صاف و پاک رکھو، منھ کی پاکیزگی اور مسواک کے ذریعہ۔

مسلمانوں پر لازم ہے کہ پاک و صاف بدن اور پاکیزہ لباس پہن کر قرآن کی تلاوت کریں۔ قرآن کی تلاوت میں اخلاص، صرف خدا کی خوشنودی اور رضا کو مد نظر رکھے۔ امام صادقؑ نے فرمایا "بےشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔" حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے فرمایا جو کوئی صرف اور صرف خدا کی خوشنودی اور دین کی سمجھ حاصل کرنے کے لئے قرآن کی تلاوت کرے تو اس کا اجر اتنا ہے جتنا اجر فرشتوں، اللہ کے نبیوں اور اس کے رسولوں کے لئے مقرر ہے۔ (وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 838)

قرآن کی تلاوت کرنے اور قرآن کی فضا میں داخل ہونے سے پہلے تیاری کرنی چاہیے اور اس تیاری کا ایک ذریعہ دعا ہے۔ امام صادقؑ تلاوت قرآن کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے "۔۔۔۔۔۔میرے معبود! میری تلاوت کو ایسی تلاوت قرار نہ دے جس میں غور و فکر نہ ہو بلکہ مجھے توفیق دے کہ میں قرآن کے احکام اور اس کی آیات پر غور و فکر کروں اور اس کی آیتوں کو اپنے اوپر نافذ کروں۔"

استعاذہ کے لئے یہ عبارت پڑھنے کا حکم ہے: "اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم" میں شیطان مردود سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔ خداوند متعال نے سورۃ نحل، آیت 98 میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگو۔ خدا کی نافرمانی کے دروازوں کو استعاذہ کے ذریعے بند کرو اور خدا کی اطاعت کے دروازوں کو بسم اللہ کے ذریعے کھولیں۔ (سفینتہ البحار، جلد 2، صفحہ 417)

حضرت آیت اللہ توسلی امام خمینی رحہ کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی کتاب میں تحریر کی ہے کہ امام خمینی رحہ ایک دن میں کم از کم تین مرتبہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔

قرآن مجید رحمت و نور اور نیک بختی کا سرچشمہ ہے لیکن ہم قرآن کی قصص، عبرت، سبق، ہدایت اور اس میں بتائی ہوئی راہوں کو چھوڑ کر یہود، نصارٰی، بت پرست اور مجوسی کی راہوں کو اختیار کر چکے ہیں۔ اللہ کو اپنا ولی، مولا، مالک مختار، قیامت، آخرت اور قرآن پر ایمان نہ رکھ کر 56 مسلم ممالک کے حکمران، حاجی، نمازی، قاری، حافظ اور مسجدوں و خانہ کعبہ کے امام امریکہ اور اسرائیل پر یقین کامل کیئے ہوئے ہیں۔ ظالموں کے ساتھ دوستی، تجارت، پٹرول، اسلحہ اور خوردنی اشیاء مہیا کر رہے ہیں۔ وضع و قطع، تراش و خراش، صورت و سیرت، تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدن، اخلاق و عادات، رفتار و گفتار، تجارت و اقتصادی معاملات اور حکومت و سلطنت غرض زندگی کے ہو شعبوں میں اس کا رخ قرآن صامت اور قرآن ناطق سے دوری اختیار کیے ہوا ہے حالانکہ رسول اکرم ﷺ کی حدیث پاک ہے کہ اس سے متمسک رہنے کے لیے فرمایا ہے اور آپؐ کی مشہور و معروف حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جو اس سے متمسک رہے گا وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگا۔

اے خدایا! ہم لوگوں کو عظمت قرآن اور تلاوت قرآن حکیم کے آداب سے آشنائی دے۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

نیک کاموں کی زینت؟

نیک کاموں کی زینت کیا ہے؟

 

امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 

فقیر کی زینت پاکدامنی ہے، غنی کی زینت شکر نعمت ہے، بلاء اور مصیبت کی زینت صبر ہے، علم کی زینت تواضع اور انکساری ہے، کلام کی زینت فصاحت ہے، روایت کی زینت اس کا تحفظ ہے، کشادہ چہرہ، کرم و سخاوت کی زینت ہے، عقل کی زینت ادب ہے، نیک کام کی زینت احسان نہ چتانا ہے، نماز کی زینت خشوع و عاجزی ہے، قناعت کی زینت فرض سے زیادہ انفاق کرنا ہے، متّقی اور پرہیزگار کی زینت خواہشات کا ترک کرنا ہے۔

 

  فصول المهمه، صفحہ 274/275

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

دوسروں کے عیوب سے کس طرح برتاؤ کریں ؟

دوسروں کے عیوب سے کس طرح برتاؤ کریں؟!

اسلامی تعلیمات میں آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دنیا سُدھارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے روشن اُصول بھی موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک واضح اُصول تکریمِ مسلم یعنی مسلمان کی عزت کرنا ہے جس کے لئے بطورِ خاص گالی گلوچ ، بہتان تراشی ، غیبت اور عیب جُوئی وغیرہ سے ممانعت اسلامی شریعت کی ہدایات میں شامل ہیں۔ عیب جُوئی کا مرض ایک وائرس کی طرح معاشرے میں پھیلتا چلا جارہا ہے ، خود کو بُھول کر دوسروں کے عیبوں کی تلاش طبیعت میں شامل ہوتی جارہی ہے جبکہ اللہ پاک  نےدوسروں کی برائیاں تلاش کرنےسے منع فرمایا ہے : وَّ لَا تَجَسَّسُوْا تَرجَمۂ کنزالایمان : اور عیب نہ ڈھونڈو۔

لذا امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:-
 
قال الامام الصادق علیه السلام:
 
لا تَنْظُرُوا فی عُیُوبِ النّاسِ کَالْأرْبابِ وَانْظُرُوا فی عُیُوبِکُمْ کَهَیْئَةِ الْعَبـْدِ
 
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
 
دوسروں کے عیبوں کو آقا و ارباب کی نظروں سے نہیں بلکہ ایک منکسر المزاج فرد کی نظروں سے دیکھو۔
 
📚تحف العقول / 295
 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

هدایت اور گمراهی

هدایت اور گمراهی

سورۃ ‎السجدة‎، آیت 13

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۳﴾


اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن میری طرف سے فیصلہ حتمی ہو چکا ہے کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے ضرور بھر دوں گا۔


یعنی اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی کہ ہر شخص کو اس کی مطلوبہ ہدایت میسر آجائے تو ایسا کر سکتا تھا مگر اس صورت میں وہ ہدایت اختیاری نہیں اجباری ہوتی، جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر اللہ کو اجباری ہدایت قبول ہوتی تو سارا نظام خلقت بے مقصد ہو جاتا اور اس صورت میں سب کو بلا استحقاق جنت میں داخل کرنا ہوتا۔ لیکن جبری ایمان قبول نہ ہونے اور انسان کو خود مختار بنانے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لاتے۔ جو ایمان نہیں لاتے انہیں جہنم میں جانا ہوتا ہے۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

فرازی از خطبہ حضرت زھرا سلام علیہا

فرازی از خطبہ حضرت زھرا سلام علیہا :
ایام فاطمیہ میں حضرت  زھرا سلام علیہا سے درس حاصل کریں:
"فجعل الله الإیمان تطهیراً لکم من الشرک، والصلاة تنزیهاً لکم عن الکبر، والزکاة تزکیةً للنفس ونماءً فی الرزق، والصیام تثبیتاً للإخلاص، والحج تشییداً للدین."
اردو ترجمہ:
اللہ نے ایمان کو تمہارے لیے شرک سے پاکیزگی کا ذریعہ بنایا، نماز کو تمہیں تکبر سے بچانے کے لیے، زکات کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافہ کے لیے، روزے کو اخلاص کو مضبوط کرنے کے لیے، اور حج کو دین کے استحکام کے لیے فرض کیا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

رسالت کی ھمسفر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا

رسالت کی ہمسفر

 اس عظیم خاتون کی تاریخ زندگی، رسالت کی تاریخ سے پوری طرح وابستہ ہے۔ پیغمبر گرامی کے آغاز رسالت کے کچھ ہی عرصے بعد اس عظیم ہستی نے طلوع کیا اور رسالت و پیغمبر اکرم کی رحلت کے کچھ ہی عرصے بعد ان کا غروب ہو گیا، مطلب یہ کہ ان کی زندگی پوری طرح عرصۂ رسالت کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔

حضرت آیت الله امام خامنہ ای حفظه الله
3 فروری 2021

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

پرخوری کے انجام

 

أمیر المؤمنین امام على علیه السلام نے ایک روایت میں پرخوری کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے۔​​​​​​

یہ روایت کتاب «غررالحکم» سے نقل کی گئی ہے۔ اس روایت کا متن اس طرح ہے:

قال أمیر المؤمنین امام على علیه السلام:

إیّاکُم وَالبِطنَةَ؛ فَإِنَّها مَقساةٌ لِلقَلبِ، مَکسَلَةٌ عَنِ الصَّلاةِ، مَفسَدَةٌ لِلجَسَدِ.

أمیر المؤمنین امام على علیه السلام نے فرمایا:

پرخوری سے پرہیز کرو کیونکہ یہ دل کی سختی، نماز میں سستی اور جسم کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔

📚غرر الحکم: ح ۲۷۴۲

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

دنیا کی غفلت اور آخرت میں حسرت

 

دنیا کی غفلت اور آخرت میں حسرت

قال الامام الحسن المجتبی علیہ السلام:

ألنّاسُ فِی دارِ سَهْوٍ وَ غَفْلَةٍ یَعْمَلُونَ وَلا یَعْلَمُونَ فَاِذا صارُوا إلى الآخِرَةِ صارُوا اِلى دارِ یَقینٍ یَعْلَمُونَ وَ لا یَعْمَلُونَ

امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا:

لوگ اس دنیا میں غفلت کے گھر میں ہیں۔ اس میں وہ جو کام کرتے ہیں اس کے (ثمر کے) متعلق کچھ نہیں جانتے اور جب آخرت کے گھر میں جائیں گے تو وہ یقین کی منزل تک پہنچیں گے وہاں پر انہیں سب معلوم ہو گا لیکن (تب وہ وہاں) اپنے لئے کوئی سودمند عمل انجام نہیں دے سکیں گے۔

📚مصابیح الانوار، ج 2، ص 271

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

اگر نیک اور صالح مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی تو سوال یہ ہے کہ نیک اور صالح عورتوں کو کیا ملے گا ـ

سوال:-  کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہی نیک عورتیں حوریں بن جائیں گی.
مزید یہ بھی واضح کیجیے کہ غلمان کا کیا تصور ہے. آیا یہ حور کی طرح کی کوئی مخلوق ہے مگر مذکر. کیا غلمان کا بھی قرآن میں ذکر آیا ہے.
بعض لگ کہتے ہیں کہ حور نہ مؤنث ہے نہ مذکر کیونکہ مؤنث اور مذکر کا تعلق جسم سے ہوتا ہے جبکہ حور کا جسم نہیں اور یہ روح کی مانند کوئی مخلوق ہے.
برائے مہربانی حوالوں کے ساتھ تفصیلی جواب دیجئے

جواب:
وعلیکم السلام ورحمة اللہ 
اس سوال کے متعدد جواب دیے گئے ہیں ان میں سےکچھ یہ ہیں ۔
1۔  قرآن مجید نے معاشرے اور مجتمع کے حیا کی خاطر اس امر کی تفاصیل بیان نہیں فرمائی بلکہ کنایہ اور اجمال سے اس کو بیان فرمایا ہے جیسے اللہ فرماتا ہے ( ۚوَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ اور یہاں تمہارے لیے تمہاری من پسند چیزیں موجود ہیں اور جو چیز تم طلب کرو گے وہ تمہارے لیے اس میں موجود ہو گی )
اور یہ آیت خواتین اور مرد دونوں کو شامل ہے اور اس میں خواتین کا جو دل کرئے گا ان کو مہیا ہو جائے گا چاہے وہ زواج ہی کیوں نہ ہو ، لذا جنت میں خواتین کا بھی خاص حصہ ہے لیکن قرآن مجید نے معاشرتی حیا کی وجہ سے اس کی تفصیل بیان نہیں فرمائی۔
اس معاشرتی حیا پر یہ روایت شاہد بھی ہے کہ ایک خاتون رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس خواتین کے احتلام کے متعلق سوال کرنے آئی کہ کیا خواتین پر بھی اس صورت میں غسل واجب ہوجاتا ہے ؟
تو اپنے سوال پوچھنے کی تمہید اس طرح بیان کی کہ " اللہ تعالی حق کو بیان کرنے سے حیا اور شرم نہیں کرتا  " یعنی اس قسم کے امور میں معاشرتی حیا اور شرم ملحوظ خاطر تھی اسی لیے تو ام سلمہ نے اس پر کہا" فضحت النساء "  تم نے خواتین کو رسوا کر دیا " صحیح مسلم ج 1 ص 172 ۔
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مجتمع اور معاشرہ خواتین کے اس قسم کے امور سے گفتگو کرنے سے اجتناب کرتا ہے حتی کہ سوال کی صورت میں بھی ۔  
2 ۔ اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ جس طرح مردوں کے لیے حور عین خواتین ہوں گی اسی طرح خواتین کے لیے بھی حورعین ہوں گے ، لیکن اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید نے حورعین کا ذکر مونث کے صیغہ کے ساتھ کیا ہے ، اور حور عین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں عورتوں کی خوبصورتی کا ذکر ہے کہ وہ باکرہ ہوں گی ، اور " کواعب أترابا " کی ماند ہوں گی تو یہ صفات صرف خواتین کی جسدی خوبصورتی کی صفات ہیں ، جیسا کہ اللہ فرماتا ہے ( وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ ۔ اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی، اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ اِنۡشَآءً  ہم نے ان (حوروں) کو ایک انداز تخلیق سے پیدا کیا۔ فَجَعَلۡنٰہُنَّ اَبۡکَارًا  پھر ہم نے انہیں باکرہ بنایا۔ عُرُبًا اَتۡرَابًا ۔ ہمسر دوست، ہم عمر بنایا ، وَّکَوَاعِبَ اَتۡرَابًا ۔ اور نوخیز ہم سن بیویاں ہیں ، وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِیۡنٌ ۔ اور ان کے پاس نگاہ نیچے رکھنے والی بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی ، کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکۡنُوۡنٌ۔ گویا کہ وہ محفوظ انڈے ہیں ، فِیۡہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ ۙ لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ ۔ ان میں نگاہیں (اپنے شوہروں تک) محدود رکھنے والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا اور نہ کسی جن نے۔) 
لذا اس نظریہ پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ قرآن مجید کے ظاہر کے خلاف ہے ، 
3 ۔ اس سوال کا مشہور جواب یہ ہے کہ عورت جنت میں اپنے دنیاوی مومن شوہر کی بیوی ہوگی  اور اس پر اللہ تعالی کے اس فرمان سے استدلال کیا گیا ہے ( ہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِـُٔوۡنَ: وہ اور ان کی ازواج سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ )
لیکن یہ کوئی شافی جواب نہیں ہے کیونکہ یہ ان خواتین کو شامل نہیں ہے جو شادی کے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوں گی یا جن کے شوہر مومن نہ ہوں ، یا جن خواتین نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہوں تو پھر کس شوہر کے ساتھ جنت میں ہو گی ، ؟
یہاں یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ کیا خواتین وہاں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں گی یا انہیں اختیارہو گا ؟ تو اس کا جواب اس روایت میں ہے جو العیاشی نے اپنی اسناد سے ابوبصیر سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے کہا میری جان آپ پر قربان ہو کیا ایک مومن مرد کی مومنہ بیوی ہو اور وہ دونوں جنت میں داخل ہو جائیں تو وہاں ایک دوسرے سے شادی کریں گے ؟
تو امام نے فرمایا ائے ابو محمد اللہ تعالی عادل ہے اگر مرد، خاتون سے افضل ہوگا تو اللہ اس کو اختیار دے گا اگر اس نے اپنی بیوی کو اختیار کیا تو وہ اس کی وہاں بھی بیوی ہو گی ، اور اگر خاتون ، مرد سے افضل ہوئی تو اللہ اس کو اختیار دے گا اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو وہ وہاں بھی اس کا شوہر ہو گا ،مجمع البیان ج 9 ص 351۔
اس روایت میں یہ تاکید ہے کہ جنت میں دونوں میاں بیوی جمع ہوں گے لیکن ان کے سامنے ایک دوسرے کو اپنانے کا اختیار ہو گا ، اور یہ اختیار اس خاتون کے پاس بھی ہو گا جس کے دنیا میں ایک سے زیادہ شوہر ہوں گے کہ وہ جسے چاہے جنت میں اختیار کرے ،جیسا کہ اس پر بعض احادیث کی نص بھی موجود ہے کہ شیخ صدوق نے اپنی اسنا د سے موسی بن ابراھیم سے ، اس نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے ان کے آباء اجداد علیہم السلام سے روایت نقل فرمائی کہ ام سلمہ نے جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اگر خاتون کے دو شوہر ہوں اور وہ پھر سب فوت ہو جائیں اور جنت میں داخل ہوں تو خاتون ان دونوں میں سے کس کے ساتھ رہے گی ؟
تو رسول اکرم نے فرمایا: ائے ام سلمہ !وہ اس کو اختیار کرے جس کا اخلاق اچھا تھا اور جو اپنے بیوی بچوں سے اچھا سلوک کرتا تھا ۔(الامالی ص 588 ، اور الخصال ص 42 )
تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جنت میں عورت کو اپنا شوہر اختیار کرنے میں آزادی ہے اور وہ مجبور نہیں ہے 
لیکن یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ اگر وہ اپنے دنیاوی شوہر کو اختیار نہیں کرتی تو پھر کیا کرئے گی ؟ یا جس خاتون کی دنیا میں شادی ہی نہیں ہوئی تھی تووہ کس کو اختیار کرئے گی ؟ 
خلاصہ یہ ہے کہ عالم الغیب اور آخرت کے امور پر یقینا کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے جب تک اس کے بارے وحی موجود نہ ہو ، لیکن جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ جنت نیک اور صالح مومنین اور مومنات کے لئے  رحمت کا گھر ہے، اس میں کسی کا حق ضائع نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی پر ظلم ہو گا اور مومن خاتون کو اللہ اتنی نعمتیں عطا فرمائے گا کہ وہ راضی ہو جائے گی  اللہ فرماتا ہے ۚ( وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ اور یہاں تمہارے لیے تمہاری من پسند چیزیں موجود ہیں اور جو چیز تم طلب کرو گے وہ تمہارے لیے اس میں موجود ہو گی)
اب اس کی وہاں شادی کی تفصیلات اور جنسی لذات کے بارے اللہ کو ہی علم ہے۔

غلمان کے متعلق آیت اللہ حافظ بشیر حسین النجفی دام ظلہ فرماتے ہیں۔۔۔
بسمہ سبحانہ دیکھیں انسان اپنی زندگی میں مرد ہو یا عورت جس طرح زوجیت کی حاجت ہے دونوں صنفوں کو اسی طرح ان کے دل کو سکون کے لئے نو عمر بچوں کی بھی ضرورت ہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ جس گھر میں کوئی بچہ نہ کھیلتا ہو اس کو تاریک قبر سے تعبیر کیا جاتا ہے جنت میں خدا اہل جنت کے لئے کھانے پینے کی لذتیں، لباس کی لذتیں،عورت کو شوہر ،شوہر کو بیوی کی لذت عطا ہو گی لیکن نو عمر بچوں کو دیکھنے کی لذت خداوندعالم ان غلمان سے عطا کرے گا۔ (واللہ العالم)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۱
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ

عظیم اوصاف کیسے حاصل کیے جائیں؟


💠#حدیث_روز 💠
بسم الله الرحمن الرحیم
🔻امیرالمؤمنین امام علی (علیه‌السلام): 
     إذا رَغِبْتَ فی المَکارِمِ فاجْتَنِبِ المَحارِمَ

❇️ اگر تم بڑے اوصاف چاہتے ہو تو حرام چیزوں سے دور رہو.
📚 غررالحکم ، حدیث ۴۰۶۹

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
قرآن و اهل البیت (ع) چینل کارگل لداخ